کالم /بلاگ

پھولوں کا اصل شہر پشاور نہیں باجوڑ کو دیکھا

تحریر ذیشان کاکاخیل

کیا سوات؟ دیر، چترال ۔۔ باجوڑ خو باجوڑ دے کنہ

پھولوں کا اصل شہر پشاور نہیں باجوڑ کو دیکھا

گزشتہ روز سابق قبائلی ضلع باجوڑ جانے کا موقع ملا،ویسے کئی بار ڈیوٹی سرنجام دینے کے لئے باجوڑ کے مختلف علاقوں کا سفر کیا مگر اس بار سیر و تفریح کی نیت کے لئے جب یہاں کا رخ کیا تو یقینا جابوڑ کو پشاور سے بھی زیادہ خوبصورت پایا۔ میرا خیال تھا کہ باجوڑ اتنا سرسبز نہیں لیکن جب وہاں جا کر مختلف علاقے دیکھے تو یقین نہیں آیا کہ باجوڑ بھی اتنا خوبصورت ہو سکتا ہے۔زندگی میں بہت سے علاقے دیکھے میں باجوڑ جیسا علاقہ شائد ہی کئی اور جگہ مل جائے۔

ہر طرف جو سبزا تھا یقین کرین آنکھوں کو ٹھنڈک مل رہی تھی، باجوڑ میں داخل ہوئے تو ہر طرف سرسبز پہاڑوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا ،صاف و شفاف ہوائیں اور آسمان کو دیکھا تو ایسا لگا جیسے آسمان ہنس کر ہمیں خوش آمدید کہہ رہا ہے۔لوگ پشاور کو پھولوں کا شہر کہتے ہیں ،،مگر میں کہتا ہو اصل پھولوں کا شہر تو باجوڑ ہے،،،کیونکہ ہر علاقے ،ہر گاوں ہر گلی میں پھول ہی پھول اپ کو دیکھنے کو ملے گے۔ویسے تو باجوڑ کا ہر علاقہ قابل دید ہے ،

مگر مین چند کا ذکر کرونگا، سب سے پہلے ہم رغگان ڈیم گئے،جہاں چند دن قبل ایک مقامی جرگہ نے خواتین کے گھروں سے نکنے پر پابندی لگائی،جس کے بعد میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایک طوفان شروع ہوگیا تھا،اس لئے میں اپنے لاہور کے صحافی دوستوں کے ساتھ وہاں گیا اور خود دیکھا کہ وہاں کیوں اور کس طرح خواتین پر پابندی لگائی گئی ہے۔رغگان ڈیم جاکر زبان سے غیر ارادی طور پر آہ،،،، کی چیخ نکل گئی،کیونکہ ٹیم کی خوبصورتی لاجواب تھی۔چاروں طرف پہاڑ اور لمبے لمبے درختوں کے درمیان اس ڈیم کو دیکھ کر انسان کے ہوش اڑ جاتے ہے۔

ساتھی دوست اور مقامی صحافی قیاس خان کو کہا میں یہاں رہنا چاہتا ہوں۔اتنی خوبصورت مناظر تو میں کھبی زندمی مین بھی نہیں دیکھے ڈیم کے اوپر پرندوں کا منظر تھا،نیچنے پانی میں درختوں کا سایہ ایک دلفریب منظر کی عکاسی کررہا تھا۔یقین مانے آپ زندگی میں ایک بار ضرور یہاں کا رخ کرے۔وہاں مقامی خواتین نے جب ہمیں دیکھا تو خود چل کر آئی اور کہا آپ مہمان ہے،ان کو دیکھ کر ہمیں یقین ہوا کہ یہاں کہ مرد تو مرد خواتین بھی مہمان دوست اور پر امن ہے۔وہاں ہم نے خواتین پر گھروں سے نکلنے پر عائد پابندی کی باتوں کو طھوٹا پایا،وہاں اب بھی خواتین نکل کر اپنا معمولات زندی جاری رکھی ہوئی تھی۔

یہاں سے فراغت ملتے ہی ہم سلارزئی روانہ ہوئے جہاں ہر ایک منظر کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کیا۔قیاص خان نے گبر چشمہ کا سیر بھی کرایا جو صاف و شفاف پانی کے چشموں کا پانی جمع ہو کر ایک خوبصورت اور لاجواب منظر پیش کررہا تھا۔گبر چشمہ ایک سیاحتی مقام ہے جو پہاڑوں کے درمیان میں واقع ہے،ہوٹل اور سیاحوں کے لئے دوسری سہولیات کی کمی کے باعث یہاں صرف مقامی سیاحوں کے ڈھیرے ہوتے ہے،

اگر سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنائے جائے تو اس مین کوئی شق نہیں کہ یہاں بھی سیاحوں کے ڈھیرے ہونگے اور یہ مقام بھی پاکستان کے بہتر سیاحتی مقامات میں شمار ہوگا۔یہاں کے سیاسی ،سماجی اور دوسرے لوگوں پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس عالقے کا مثبت چہرا دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے اقدامات کرے،

مقامی اور صوبائی صحافیوں کی مدد لی جائے تو وہ دن دور نہیں کہ یہاں بھی سیاحوں کا رش ہوگا۔یہاں جاتے ہوئے سب سے زیادہ ڈر میرے دل مین امن و امان کا تھا کہ پتہ نہیں یہاں کیا حالات ہونگے،یہاں سیکورٹی کے کتنے مسائل ہونگے،یہاں کے لوگ کیسے ہونگے،یقین مانے یہاں کہ لوگ اتنہائی مہمان دوست اور پیار کرنے والے ہے۔جس کا اندازہ ہمیں ہر کسی کی جانب سے دعوتوں کی صورت میں ہوا۔ جس کو بھی معلوم ہوجاتا کہ میں یہاں ہو تو وہ ضرور چائے اور کھانے کا دعوت دیتا۔

سلارزئی میں مقامی مشر اور سیاسی رہنمائیسے ملاقات کی ،جنہوں نے خوب خاطر مدارت اور مہمان نوازی کی۔اس کے بعد واپسی پر ایک اور دوست سلمان سے ملاقات کی ،جہنوں نے ایک بہترین چائے سے ہمارا استقبال کیا۔سلمان کے چائے نے سر درد ختم کیا اور مزید سفر کرنے کے قابل ہوئے۔

سلارزئی سے خار آئے یہاں پختونخوا ریڈیو میں بطور مہمان شرکت کی اور لوگوں سے بہت عزت اور حوصلہ افزائی ملی۔رات کا کھانا حصبن اللہ کے رہائش گاہ پر کھائی جہاں ان کے بھائیوں کی جانب سے خوب مہمان نوازی کی گئی۔تمام قبائلی اضلاع میں سہولیات کی کمی اور مسائل کے حل کے لئے اگر اقدامات کئے جائے تو یقین مانے ان علاقوں سے خوبصورت علاقے پورے پاکستان میں نہیں ہے۔

باجوڑ کی خوبصورتی اتنی کے کیا سوات،کیا دیر اور چترال باجوڑ خو باجوڑ دے کنہ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button