ماحولیات

جنگلات کی کٹائی افات کو دعوت دیتی ہے:موسمیاتی تبدیلی

میاں وقاص احمد

‎ہر سال سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ یہ افتیں زیادہ شدید ہوتی جا رہی ہیں، زیادہ تباہی مچا رہے ہیں۔ فوراً ذہن جاتا ہے موسمیاتی تبدیلی کی طرف سب یہی کہتے ہیں لیکن اج ہم ذرا ایک مختلف زاویے سے دیکھ رہے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ اصل مسئلہ یا کم از کم ایک بہت بڑا مسئلہ جنگلات کی کٹائی ہو؟ جو شاید خاموشی سے ان افتوں کو موسمیاتی تبدیلی سے بھی زیادہ بگاڑ رہی ہو؟ پیرس معاہدے کے بعد ایک عام سی بات ہو گئی ہے کہ ہر چیز کو، ہر افت کو، بس موسمیاتی تبدیلی سے جوڑ دو۔ اکثر فنڈز کی کمی کا کہہ کر یا بیرونی عوامل کا کہہ کر ہم اپنی اندرونی کوتاہیوں پر نظر نہیں ڈالتے۔ تو اب وقت اگیا ہے کہ ہم اپنے گریباں میں جھانکیں خاص طور پر جنگلات کے معاملے میں۔ اب ہمیں سنجیدگی سے یہ دیکھنا ہوگا کہ ہمارے اپنے اعمال، جیسے جنگلات کی کٹائی کس طرح ان مسائل کو بڑھا رہے ہیں۔
‎پاکستان میں جنگلات کی اصل صورتحال ہے کیا؟


‎ جنگلات کا رقبہ لگاتار کم ہو رہا ہے اور یہ صرف درخت کم ہونا نہیں ہے، جب جنگل کٹتے ہیں تو ایک خطرناک چکر شروع ہو جاتا ہے۔ زمین ننگی ہو جاتی ہے۔ پانی جذب ہونے کی بجائے تیزی سے بہتا ہے، مٹی کو ساتھ لے جاتا ہے۔ اس سے سیلاب کا خطرہ بڑھتا ہے لینڈ سلائیڈنگ ہوتی ہے اور پھر وہی افتیں شاید بچے کچے جنگلات کو مزید نقصان پہنچاتی ہوں گی۔
‎ یہ ایک وشس سائیکل ہے ایک منفی فیڈ بیک لوپ جسے کہتے ہیں۔ جنگلات کی کٹائی افات کو دعوت دیتی ہے اور پھر افات مزید جنگلات کو تباہ کرتی ہیں۔ اگر ہم اعداد و شمار کی بات کریں خاص طور پر خیبر پختون خواہ، ازاد کشمیر، گلگت بلتستان جیسے اہم علاقوں کے، تو کے پی میں گلوبل فارسٹ واچ کا ڈیٹا بتاتا ہے کہ 2020 میں کے پی میں تقریبا نو لاکھ 37 ہزار ہیکٹر قدرتی جنگل تھا۔ یہ صوبے کے کل رقبے کا کوئی 12 فیصد ہے۔ یہ تو ویسے ہی کم ہے لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ مزید کم ہو رہا ہے۔ صرف 2024 کے شروع میں ہی چند مہینوں میں 235 ہیکٹیئر جنگل ختم ہو گیا۔ یہ کتنا بڑا علاقہ بنتا ہے اندازا اپ ایسے سمجھیں کہ اسلام اباد کا جو ایف نائن پارک ہے اس سے بھی بڑا علاقہ ہے۔ اتنا جنگل صرف چند مہینوں میں صاف ہو گیا اور اس سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی اکسائیڈ وہ تقریبا 41 ہزار ٹن ہے۔


‎ یہ نقصان کیا پورے صوبے میں ایک جیسا ہے؟ نہیں مالاکھنڈ ڈویژن میں سب سے زیادہ کٹائی ہوئی ہے۔ پچھلے 20 سال کی جو اوسط ہے اس سے کہیں زیادہ نقصان وہاں ہوا ہے ہزارہ ڈویژن دوسرے نمبر پر ہے ۔ سالانہ اندازہ ہے کہ 2000 سے 2023 تک کے پی میں ہر سال اوسطا 11 ہزار ہیکٹر جنگلات کا نقصان ہوا ہے۔ یہ تقریبا 1.5 فیصد سالانہ بنتا ہے اور کچھ اندازے تو یہ بھی ہیں کہ چترال جیسے علاقوں میں 2030 تک 23 فیصد تک جنگلات ختم ہو سکتے ہیں۔
‎ ہیٹ پمپ ایفیکٹ جب درخت نہیں ہوتے ہیں تو زمین سورج کی روشنی کو براہ راست جذب کرتی ہے اور وہ جنگل والی زمین کے مقابلے میں پانچ سے اٹھ ڈگری سیلسیس زیادہ گرم ہو جاتی ہے۔ یہ زمین اور سمندر کے درجہ حرارت کے درمیان فرق کو بڑھا دیتی ہے زمین پر ہوا زیادہ گرم اور خشک ہوتی ہے تو وہ تیزی سے اوپر اٹھتی ہے اور جب وہ اوپر اٹھتی ہے تو وہ سمندر سے انے والی نمی والی ہوا کو اپنی طرف کھینچتی ہے زیادہ شدت سے کھینچتی ہے۔
‎ اس سال بحیرہ عرب کا درجہ حرارت اوسط سے تقریبا پوائنٹ اٹھ ڈگری سیلشز زیادہ رہا ہے۔ یعنی ہوا میں نمی پہلے ہی زیادہ ہے۔ جب یہ بہت زیادہ نمی سے لدی ہوئی ہوائیں ان گرم ننگی پہاڑی ڈھلوانوں سے ٹکراتی ہیں جہاں پہلے جنگل تھے اب نہیں ہے جی تو وہ ہوا ایک دم دھماکے کی طرح اوپر اٹھتی ہے بہت تیزی سے اس سے بادل اتنی تیزی سے بنتے اور گاڑے ہوتے ہیں تو وہ پھٹ پڑتے ہیں اسی کو کلاؤڈ برسٹ کہتے ہے اور نتیجہ پھر شدید بارشیں، اچانک سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ اور گلیشیئر پگھتے ہیں۔


‎ ابھی حالی میں چترال سے ہزارہ سے حتی کہ ایوبہ پارک سے بھی جنگلات کی تباہی کی خبریں ائیں ہے ۔تو یہ صرف ایک ماحولیاتی مسئلہ نہیں رہا ہے، یہ تو براہ راست لوگوں کو متاثر کر رہا ہے۔ یہ صرف ماحول کی تباہی نہیں ہے اس سے لوگوں کی جانیں جا رہی ہیں ان کے روزگار تباہ ہو رہے ہیں۔ غریب لوگ کمزور کمیونٹیز اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں اور انفراسٹرکچر کا نقصان الگ سڑکیں پل وہ مہنگا انفراسٹرکچر جس پر اربوں روپے لگتے ہیں وہ تباہ ہو جاتا ہے۔
‎ تو یہ ایک معاشی اور انسانی عالمیہ ہے جو جنگلات کی کٹائی سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔
‎ کیا ہم نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے ؟


‎۔ 1992 کا سیلاب پھر 2010 کا کلام میں جو تباہی ائی تھی افسوس کی بات یہی ہے کہ ہم بہت جلد بھول جاتے ہیں۔ وہ کلام کے سیلاب ہوں یا ابھی حال میں بابو سر میں مانسہرہ بنیر سوات اور باجوڑ میں جو کلاؤڈ برسٹ ہوئے ہیں ان سب واقعات میں جنگلات کی کمی اور نقصان کی شدت کا واضح تعلق تھا اور بین الاقوامی سطح پر جو ہم نے وعدے کیے ہیں، پیرس معاہدہ ایس ڈی جیز ان میں بھی ہم ان اہداف کو پورا کرنے میں بھی پیچھے ہیں۔
‎ چاہے وہ پائیدار ترقی کے اہداف ہوں یا موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ہمارے وعدے پالیسیاں بنتی ہیں۔ لیکن ان پر عمل درامد خاص طور پر جنگلات کے قوانین پر عمل درامد ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
‎تو کب تک ہم بیرونی عوامل کو الزام دیتے رہیں گے؟ ہمیں اپنی ذمہ داری قبول کرنی ہوگی۔
‎ تو اگے کا راستہ کیا ہے؟ کیا اس نقصان کی تلافی ہو سکتی ہے؟ مستقبل میں اگر ہم محفوظ رہنا چاہتے ہیں تو دو کام فوری طور پر کرنے ہوں گے۔
‎1) ایک تو جو جنگلات تباہ ہو چکے ہیں انہیں بحال کرنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے۔
‎2) اور دوسرا اور جو جنگلات ابھی باقی ہیں انہیں ہر قیمت پر بچایا جائے ان کے استحصال اور کٹائی کو روکا جائے. یہ صرف درخت لگانے یا بچانے کی بات نہیں ہے، یہ اس سے بڑھ کر ہے۔
‎ یہ مستقبل میں انے والے معاشی بوجھ کو کم کرنے، لوگوں کو بے گھر ہونے سے بچانے، ان کی صحت اور زندگیاں محفوظ بنانے کا سوال ہے۔
‎ تو خلاصہ یہ ہوا کہ جنگلات کی یہ جو بے دریغ کٹائی ہے یہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم نہیں کر رہی، بلکہ کئی گنا بڑھا رہی ہے۔ ہم جان بوجھ کر یا شاید انجانے میں خود کو زیادہ بڑے خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ اصل پیغام یہی ہے جنگلات کی حفاظت اور بحالی کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہ صرف ماحولیات کا مسئلہ نہیں یہ ہماری بقا ہماری قومی سلامتی کا مسئلہ بن چکا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button