کالم /بلاگ

صحافی شہید ڈاکٹر نور حکیم کو 18 سال گزر گئ

صحافی شہید ڈاکٹر نور حکیم کو 18 سال گزر گئے… مگر ریاستی خاموشی آج بھی قائم ہے

آج ڈاکٹر نور حکیم شہید کو ہم سے بچھڑے 18 سال ہو چکے ہیں – وہ ایک نڈر، باہمت اور سچ کے لیے جان دینے والا صحافی تھا۔ وہ نہ صرف میرا بڑا بھائی تھا، بلکہ میرا دوست، ساتھی اور زندگی کا اہم سہارا بھی تھا۔ 2 جون 2007 کو سلازو (ملا سید بانڈہ) میں ایک جرگے کی کوریج کے بعد واپسی پر ریموٹ کنٹرول بم حملے میں وہ شہید ہوا

یہ صرف میری کہانی نہیں — یہ ان تمام صحافیوں کی کہانی ہے جو سابق فاٹا، خاص طور پر باجوڑ.مومند حیبر ۔ کرم وزیرستان جیسے حساس علاقوں میں جان ہتھیلی پر رکھ کر صحافت کر رہے تھے۔

افسوس! آج 18 سال گزرنے کے بعد بھی نہ وفاقی حکومت نے، نہ صوبائی حکومت نے، نہ صدرِ پاکستان نے، اور نہ کسی ادارے نے کوئی شہادت پیکج دیا۔ نہ کوئی معاوضہ، نہ کوئی سرکاری امداد۔

تمام صحافتی تنظیمیں، جو تنظیمی انتخابات کے وقت تو بہت سرگرم ہوتی ہیں، وہ بھی اس مسئلے پر مکمل خاموش ہیں۔ صرف مخصوص مواقع پر شہداء کو یاد کیا جاتا ہے، لیکن ان کے بچوں اور خاندانوں کی زندگی کی تلخیوں، مشکلات اور محرومیوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

یاد رہے کہ سابق فاٹا سے اب تک 18 صحافی شہید ہو چکے ہیں، لیکن ان کے لواحقین آج بھی شدید مالی، ذہنی اور معاشرتی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔

کیا ریاست اور صحافتی اداروں کے نزدیک قلم کی قربانی کی کوئی اہمیت نہیں؟

ہم حکومت، صحافتی تنظیموں، اور انسانی حقوق کے اداروں سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں:

شہداء صحافیوں کو سرکاری طور پر تسلیم کیا جائے

انہیں صدارتی تمغہ برائے شجاعت یا مساوی اعزاز دیا جائے

ان کے خاندانوں کو شہادت پیکج، مالی امداد، اور تعلیمی اسکالرشپ دی جائے

صحافتی تنظیمیں خاموشی توڑیں اور فعال لائحہ عمل اختیار کریں
ڈاکٹرنورحکیم_شہید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button