خیبر پختونخواکالم /بلاگ

پشتونوں کے ساتھ زیادتی، دہشت گردی اور جنگ و جدل کے سخت مخالف : مفتی منیر شاکر

مفتی منیر شاکر – ایک مختصر تعارف

مفتی منیر شاکر 1969 میں ضلع کرک میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام مولوی رحمت اللہ تھا۔ ان کے دو بیٹے، عبداللہ اور عبدالرحمٰن، ہیں۔

مفتی منیر شاکر نے 2004 میں خیبر ایجنسی کے علاقے باڑہ میں "لشکرِ اسلام” کے نام سے ایک تنظیم قائم کی اور ایک ایف ایم ریڈیو چینل کے ذریعے اپنے خیالات کی تبلیغ شروع کی۔ اسی دوران، پیر سیف الرحمان، جو 1980 میں افغانستان سے ہجرت کرکے باڑہ آئے تھے، کے ساتھ ان کے شدید نظریاتی اختلافات پیدا ہوئے۔ ردعمل کے طور پر، پیر سیف الرحمان نے 2005 میں اپنا ایف ایم ریڈیو اسٹیشن قائم کرلیا، جس کے نتیجے میں دونوں کے درمیان مسلح تصادم شروع ہوگیا۔

29 مارچ 2006 کو مفتی منیر شاکر نے پیر سیف الرحمان پر بڑے حملے کی تیاری کی، تاہم چھ ماہ بعد قومی جرگے نے دونوں کو خیبر ایجنسی سے بے دخل کر دیا۔ اس کے بعد، منگل باغ نے لشکرِ اسلام کی قیادت سنبھال لی۔ 2008 میں حکومت نے لشکرِ اسلام پر پابندی عائد کر دی۔

مفتی منیر شاکر کے والد کے مطابق، انہیں کراچی ایئرپورٹ سے حراست میں لیا گیا تھا اور وہ تقریباً دو سال تک لاپتہ رہے۔ وہ دیوبندی مکتبِ فکر کی ذیلی شاخ "پنج پیر” کے پیروکار تھے اور "اشاعتِ توحید” میں ایک عہدے پر بھی فائز رہے۔ تاہم، سات سال قبل ان کے "اشاعتِ توحید” سے شدید نظریاتی اختلافات پیدا ہوگئے، جس کے بعد انہوں نے جماعتی اور سیاسی طور پر علیحدگی اختیار کرلی اور "اہلِ قرآن” کا منہج اپنایا۔ اس نظریاتی تبدیلی کے نتیجے میں، انہوں نے اہلِ سنت کے مشہور یا جمہوری مسلک کو بھی ترک کر دیا۔

مفتی منیر شاکر نے کئی کتابیں تصنیف کیں، جن میں "البرہان علی من أعرض عن القرآن”، "الفرقان بین عباد الرحمن”، "الفرقان بین دین الرحمن و دین ایران”، اور "کیا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جادوگر نے شکست دی؟” شامل ہیں۔ ان کتب میں انہوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ایرانی اثر و رسوخ کے تحت جعلی احادیث کو اہلِ سنت کی بنیادی کتب، جیسے بخاری اور مسلم، میں شامل کیا گیا تاکہ دین کی اصل تعلیمات کو مسخ کیا جا سکے۔ ان کے مطابق، اصل دین وہی ہے جو قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے۔

مفتی منیر شاکر کا انداز نہایت بےباک اور جارحانہ تھا، جس کی وجہ سے انہیں جہاں کافی حمایت حاصل ہوئی، وہیں شدید مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ان کے خیالات کے کلپس سوشل میڈیا پر وائرل ہوتے رہتے تھے، اور وہ کالعدم پی ٹی ایم کی حمایت بھی کرتے تھے۔ پشتون قومی جرگہ میں بھی وہ فعال کردار ادا کرتے رہے۔

جب وہ "اشاعتِ توحید” سے وابستہ تھے، تو ان کے بیانات، مناظرے اور تصنیفات توحید، پیری مریدی، حدیث کے انکار، زیارتِ قبور اور دیگر فقہی مسائل کے گرد گھومتے تھے۔ تاہم، اپنے آخری سالوں میں ان کے نظریات میں واضح تبدیلی آئی، اور وہ مبینہ ریاستی جبر، پشتونوں کے ساتھ زیادتی، دہشت گردی اور جنگ و جدل کے سخت مخالف بن گئے۔

مفتی منیر شاکر 15 مارچ 2025 کو نمازِ عصر کے بعد گھر سے نکلے، اور پشاور کے "کچوڑی اور مڑو” نامی علاقے میں مسجد کے قریب ہونے والے ایک بم دھماکے میں شہید ہوگئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button