انسانی حقوقپاکستان

آئین پاکستان اور آپ کے بنیادی حقوق۔

مصباح الدین اتمانی

کوئی بھی ملک و قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک وہاں کے شہریوں کے بنیادی کو تحفظ حاصل نہ ہو، پاکستان بھی ایک جمہوری ملک ہے اور یہاں 1973 کی ائین نے شہریوں کو بنیادی حقوق کی ضمانت دی ہے، تو پھر کیوں یہاں ہر کوئی بنیادی حقوق سے محرومی کا رونا رو رہے ہیں، کیوں ہر عمر اور ہر طبقے کا شخص بنیادی حقوق کے استحصال پر مایوس ہے؟
میں بتاتا ہوں، بنیادی حقوق کی تفصیل آئین کے آرٹیکل 8 سے آرٹیکل 28 تک درج ہے۔ آئین کے آرٹیکل 8 میں درج ہے کہ ماسوائے آرمڈ فورسز یا پولیس کے ان اختیارات کے جو انہیں اپنی ذمہ داریاں کما حقہ ادا کرنے کی غرض سے دئیے جانے ضروری ہوں ،مملکت کوئی ایسا قانون نہیں بنائے گی جو شہریوں کے بنیادی آئینی حقوق کے منافی ہو۔ بنیادی آئینی حقوق سے متصادم ہر قانون کالعدم تصور ہوگا۔ آئین کی اس شق کے وجود سے نہ صرف شہریوں کے بنیادی حقوق کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے بلکہ یہ شق ریاست کی سمت بھی واضح کرتی ہے۔ لیکن یہاں تو زیادہ تر لوگ اپنے بنیادی حقوق سے ناواقف ہے، وہ 1973 کے ائین میں موجود ان آرٹیکلز کے بارے میں نہیں جانتے جہاں ان کی بنیادی حقوق کو تحفظ فراہم کی گئی، ہم کوشش کریں گے کہ اس تحریر میں ہم آسان اور مختصر الفاظ میں ان بنیادی حقوق سے آپ کو روشناس کرائے جن کا ذکر 1973 کی دستور میں موجود ہے۔
آئین کے آرٹیکل نمبر 9 میں یہ لکھا گیا ہے کہ کسی شخص کو زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا سوائے جبکہ قانون اسکی اجازت دے ۔ آئین کے آرٹیکل 10 میں لکھا گیا ہے کہ ہر شہری کس منصفانہ سماعت کا حق حاصل ہوگا ۔ کسی شخص کو اگر گرفتار کیا گیا ہو تو اسے گرفتاری کی وجوہات سے اگاہ کیے بغیر نہ تو نظر بند رکھاجائے گا اور نہ اسے اپنی پسند کے کسی قانون پیشہ شخص سے مشورہ کرنے اور اسکے ذریعہ صفائی پیش کرنے کے حق سے محروم کیا جائے گا ۔ مذکورہ گرفتاری کے چوبیس گھنٹہ کے اندراندر کسی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا لازم ہوگا۔
آئین کے آرٹیکل نمبر 11 میں غلامی اور بیگار وغیرہ کی ممانعت کی گئی ہے، اس ارٹیکل میں بیگار کی تمام صورتوں اور انسانوں کی خرید و فروخت کو ممنوع قرار دیا گیا ہے ہے ۔ اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے چودہ سال سے کم عمر کے کسی بچے کو کسی کارخانے یا کان یا دیگر پرخطر ملازمت میں نہیں رکھا جائے گا۔
آئین کے آرٹیکل 12 میں لکھا گیا ہے کہ کوئی قانون کسی شخص کو کسی ایسے فعل یا ترک فعل کے لئے جس اس فعل کے سرزد ہونے کے وقت کسی قانون کے تحت قابل سزا نہ تھا سزا دینے کی اجازت نہیں دے گا یا کسی جرم کے لئے ایسی سزا دینے کی جو اس جرم کے ارتکاب کے وقت کسی قانون کی رو سے اسکے لئے مقررہ سزا سے زیادہ سخت یا اس سے مختلف ہو، اجازت نہیں دے گا ۔ سادہ الفاظ میں اگر آپ نے ماضی میں کوئی فعل کیا ہے لیکن اس وقت قانون سازی نہیں ہوئی تھی اور وہ فعل قابل سزہ نہیں تھا تو قانون بننے کے بعد ماضی کے اس فعل پر آپ کو سزہ نہیں دی جا سکتی۔
آئین کا آرٹیکل نمبر 13: ۔ کسی شخص پر ایک ہی جرم کی بناء پر ایک بار سے زیادہ نہ تو مقدمہ چلایا جائے گا اور نہ سزا دی جائے گی یا کسی شخص کو جب اس پر کسی جرم کا الزام ہو، اس بات پر مجبور نہیں کیا جائے گا کہ وہ اپنے ہی خلاف ایک گواہ بنے ۔ آئین کا آرٹیکل نمبر 14: ۔ شرف انسانی اور قانون کے تابع، گھر کی خلوت قابل حرمت ہوگی ۔ اور کسی شخص کو شہادت حاصل کرنے کی غرض سے اذیت نہیں دی جائے گی۔ آئین کے آرٹیکل 15 میں لکھا گیا ہے کہ ہر شہری کو پاکستان میں رہنے اور مفادعامہ کے پیش نظر قانون کے ذریعہ عائد کردہ کسی معقول پابندی کے تابع، پاکستان میں داخل ہونے اور اسکے ہر حصے میں آزادانہ نقل و حرکت کرنے اور اسکے کسی حصے میں سکونت اختیار کرنے اور آباد ہونے کا حق ہوگا۔ آئین کا آرٹیکل نمبر 16: ۔ امن عامہ کے مفاد میں قانون کے ذریعے عائد کردہ پابندیوں کے تابع، ہر شہری کو پرامن طور پر اور اسلحہ کے بغیر جمع ہونے کا حق ہوگا ۔ آئین کے آرٹیکل نمبر 17 میں لکھا گیا ہے کہ پاکستان کی حاکمیت اعلی یا سالمیت امن عامہ یا اخلاق کے مفاد میں قانون کے ذریعے عائد کردہ معقول پابندیوں کے تابع، ہر شہری کو انجمن یا یونین بنانے کا حق حاصل ہوگا ۔ ہر شہری کو جو ملازمت پاکستان میں نہ ہو، قانون کے ذریعے عائد پابندیوں کے تابع کوئی سیاسی جماعت بنانے یا اسکا رکن بننے کا حق ہوگا ۔
آئین کا آرٹیکل نمبر 18: ۔ ہر شہری کو کوئی جائز پیشہ یا مشغلہ اختیار کرنے اور کوئی جائز تجارت یا کاروبار کرنے کا حق ہوگا ۔آئین کا آرٹیکل نمبر 19: ۔ اسلام کی عظمت یا پاکستان یا اسکے کسی حصہ کی سا لمیت، سلامتی یا دفاع، غیر ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات، امن عامہ، تہذیب یا اخلاق کے مفاد کے پیش نظر یا توہین عدالت، کسی جرم کے ارتکاب یا اسکی ترغیب سے متعلق قانون کے ذریعے عائد کردہ پابندیوں کے تابع، ہر شہری کو تقریر اور اظہار خیال کی آزادی کا حق ہوگا، اور پریس کی آزادی ہوگی ۔ قانون کے ذریعے عائد کردہ مناسب پابندیوں اور ضوابط کے تابع ہر شہری کو عوامی اہمیت کی حامل تمام معلومات تک رسائی کا حق ہوگا ۔ آئین کا آرٹیکل نمبر 20: ۔ قانون، امن عامہ اور اخلاق کے تابع ۔ ۔ ہر شخص کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے، اس پر عمل کرنے اس اسکی تبلیغ کرنے کا حق ہوگا اور ہر مذہبی گروہ اور اسکے ہر فرقے کو اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے، برقرار اور انکا انتظام کرنے کا حق ہوگا ۔
آئین کا آرٹیکل نمبر 21: ۔ کسی خاص مذہب کی اغراض کے لئے محصول لگانے سے تحفظ ۔
آئین کا آرٹیکل نمبر 22: ۔ کسی تعلیمی ادارے میں تعلیم پانے والے کسی شخص کو مذہبی تعلیم حاصل کرنے یا کسی مذہبی تقریب میں حصہ لینے یا مذہبی عبادت میں شرکت کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا ۔ اگر ایسی تعلیم، تقریب یا عبادت کا تعلق اسکے مذہب کے علاوہ کسی اور مذہب سے ہو ۔آئین کا آرٹیکل نمبر 23: ۔ دستور اور مفادعامہ کے پیش نظر قانون کے ذریعے عائد کردہ پابندیوں کے تابع، ہر شہری کو جائیداد حاصل کرنے، قبضہ میں رکھنے اور فروخت کرنے کا حق ہوگا۔آئین کا آرٹیکل نمبر 24: ۔ کسی شخص کو اسکی جائیداد سے محروم نہیں کیا جائے گا سوائے جبکہ قانون اسکی اجازت دے ۔
آئین کا آرٹیکل نمبر 25: ۔ شہریوں سے مساوات ۔ ۔ تمام شہر ی قانون کی نظر میں برابر ہیں اور قانونی تحفظ کے مساوی طور پر حقدار ہیں۔ آئین کا آرٹیکل نمبر 26 : ۔ عام تفریح گاہوں یا جمع ہونے کی جگہوں میں جو صرف مذہبی اغراض کے لئے مختص نہ ہوں ، آنے جانے کے لئے کسی شہری کے ساتھ محض نسل، مذہب، ذات، جنس، سکونت یا مقام پیدائش کی بناء پر کوئی امتیاز نہیں رکھا جائے گا، آئین کے آرٹیکل 27 میں لکھا گیا ہے کہ کسی شہری کے ساتھ بہ اعتبار دیگر پاکستان کی ملازمت میں تقرر اہل ہو، کسی ایسے تقرر کے سلسلے میں محض نسل، مذہب، ذات، جنس، سکونت یا مقام پیدائش کی بناء پر امتیاز نہیں رکھا جائے گا۔ اس طرح آئین کے آرٹیکل 28 میں لکھا گیا ہے کہ شہریوں کے کسی طبقہ کو، جسکی ایک الگ زبان، رسم الخط یا ثقافت ہو، اسے برقرار رکھنے اور فروغ دینے اور قانون کے تابع، اس غرض کے لئے ادارے قائم کرنے کا حق ہوگا ۔ آگر آپ آئین کے ان شقوں پر غور کریں تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ آئین پاکستان میں تمام تر بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے لیکن بدقسمتی سے اس پر عمل دارامد نہ ہونے کے برابر ہے، ایک طرف یہاں پر مختلف ادارے آپ کے بنیادی حقوق تسلیم ہی نہیں کرتے تو دوسری طرف نصف سے زیادہ عوام کو اپنی ائینی اور بنیادی حقوق کا پتہ ہی نہیں ہے۔ 1973 سے لیکر آج تک اس ائین میں جتنے بھی ترامیم کی گئی ہیں وہ حکمران اشرافیہ کے اقتدار اور اختیارات کے بارے میں ہیں اور کوئی ایک بھی ترمیم ایسی نہیں کی گئی جس کا مقصد عوام کے بنیادی حقوق کو یقینی بنانا ہو جب تک عوام بیدار باشعور اور منظنہیں ہوں گے تب تک وہ اس ریاست خدا داد میں اپنے آئینی بنیادی حقوق حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button