فیکٹ چیک

کیا واقعی لیبیا میں سیلاب سے تیس ہزار ہلاکتیں ہوئی اورایک لاکھ افراد لاپتہ ہیں؟

لیبیا میں تباہ کن سیلاب سے تیس ہزار ہلاکتیں اور لاپتہ ایک لاکھ افراد کا معمہ صحافت کی نظر سے !

سعید بادشاہ مہنمد  

 خبری دعویٰ: فیسبوک پر خبروائرل ہے کہ لیبیا میں سیلاب سے 30 ہزار لوگ شہید اور ایک لاکھ افراد لاپتہ ہیں   

حقیقت : اس دعویٰ میں صداقت نہیں اور ہلاکتوں کا شمار بڑھاچڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔ اس معلومات کو ہزاروں لوگوں نے بغیر تحقیق کے لیبیا کے لوگوں سے ہمدردی کے طور پر پھیلائی۔

14 ستمبر کو قبائیلی اضلاع  میں مقامی فیسبوک نیوز پیجز/اکاونٹس سے خبروائرل ہوئی  جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ لیبیا میں رات کے وقت تباہ کن سیلاب سے 30 ہزار لوگ جان بحق اور ایک لاکھ لوگ اب بھی لاپتہ ہیں۔ یہ پوسٹ مختلف   علاقوں میں  سوشل میڈیا صارفین  کی طرف سے وائرل کیا گیا۔  اور سوشل میڈیا استعمال کرنے والے صارفین تازہ اپ ڈیٹس کے طور پر ایک دوسرے کو  خبر رسانی کے  متعدد میڈیا اپلیکیشنز کے ذریعے بھیجنے لگے۔ اس دوران PDMA کی طرف سے 15 ستمبر کو پاکستان کے نشیبی علاقوں  بالخصوص خیبرپختونخواہ میں بارش اور طوفان سے خبردار رہنے کا الرٹ جاری ہوا۔ اور یوں لیبیا کی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے PDMA کی نشاندہی والے علاقے کے لوگوں میں خوف پھیل گیا۔

فیکٹ چیکنگ: اس وائرل خبر پر باجوڑ ٹائمز  نے جب فیکٹ چیک کرنے کا عمل شروع کیا۔  تو اس عمل کے لیے سب سے پہلے  بین الاقوامی مستند خبری ادارے بی بی سی کا انتخاب کیا گیا، اور بی بی سی اردو  کی تازہ ترین اپ ڈیٹس کو ٹٹولنا شروع کردیا گیا۔بی بی سی اردو کے مطابق لیبیا کے شہر درنہ میں ہلاکتوں کے مختلف اندازے ہیں۔ اقوام متحدہ  میں لیبیا کے سفارتکار کے مطابق سیلاب سے اب تک 6 ہزار افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے۔جبکہ  ہزاروں لوگ اب بھی ڈھلوانوں کے تہہ میں دھنس کر  لاپتہ ہیں۔ لیبیا میں ہلال احمر کے مطابق درنہ کے سیلاب سے 10 ہزارافراد کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

جبکہ لیبیا کے متاثرہ شہر درنہ کے مئیر نے خبردار کیا ہے کہ ہلاکتیں 20 ہزار تک ہوسکتی ہے۔

امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی تازہ اپ ڈیٹس کو ٹٹولا تو اسی ادارے نے ڈاکٹرزود آوٹ بارڈر کے حوالے سے خبر دی ہے کہ اب تک لیبیا میں 5 ہزار لوگوں کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے۔ اس طرح ہم نے عرب اور اسلامی دنیامیں معروف قطر میں موجود نشریاتی ادارے  الجزیرہ انٹرنیشنل کی اپ ڈیٹس دیکھی تو وہ اعداد و شمار کے لحاظ سے کافی مختاط نظر آتے ہیں۔ الجزیرہ خبروں میں ہزاروں افراد کی ہلاکت اور ہزاروں افراد کی گمشدگی کے الفاظ پر اکتفا کرکے اعداد و شمار کی تفصیل بتانے سے گریزاں ہے۔ شاید  ریسکیو آپریشن کی تکمیل اور تصدیق  کے بعد اعداد وشمار بتائیں گے۔

17 ستمبر کو اقوام متحدہ نے 11300 افراد کی ہلاکت اور 10100 افراد لاپتہ ہونے کی تصدیق کی ہے۔

فیکٹ چیکنگ کے دوران معلوم ہوا کہ کسی بھی مستند خبری ادارے نے 30 ہزار افراد کی ہلاکت اور ایک لاکھ افراد کی گمشدگی کا ذکر یا تصدیق نہیں کیا ہے۔

اس لئےہم اس نتیجے پر پہنچے کہ سوشل میڈیا پر وائرل 30 ہزار افراد کی ہلاکت کی خبر میں صداقت نہیں۔ اور مس انفار میشن

Misinformation

 پر مبنی  جو کہ   فیک  یعنی غلط خبر ہے جسے بڑھا چڑھا کر  پھیلا گیا ہے۔

صحافتی نقطہ نظر سے ٹیکنالوجی کے تیز ترین دور میں  خبر کی آگ پکڑتی تیز رفتاری اور اس کے برعکس اسکا مستند ہونا یا نہ ہونا ایک ایسا ہی چیلنج ہے جس سے شاید تیسری دنیا کے ممالک  کو نکلنے میں شاید کئی برس لگ جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button