کالم /بلاگ

پی ٹی آئی کا ”جیل بھرو تحریک“۔ مزاحمتی سیاست کا مزاحیہ ڈرامہ

جاوید ثاقب

برصغیر پاک وہند کے سیاست میں ”جیل بھرو تحریک“ کا تاریخ گہرے جڑے رکھتے ہیں۔یہ ایک ایسا تحریک ہوتا ہے، جس میں ہر ضلع سے اپوزیشن جماعت کا ہزاروں کارکنان جیل جاتے ہیں اور جیلوں کو بھر دیتے ہیں، جس سے حکومت وقت کو مجبور کیا جارہا ہے کہ اپوزیشن جماعت کے مطالبات کو مانا جائیں۔ انگریز سامراج کے دور میں یہ تحریکیں کئی دفع کانگرس اورخدائی خدمتگار تحریک نے چلائے ہیں۔ لیکن ان تحریکوں میں پہلی گاندھی جی اور فخر افغان باچاخان خود انگریز حکومت کو گرفتاریاں دیتے تھے اور پھر دیگر کارکنان اپنے اپنے علاقوں کے جیلوں میں گرفتاریاں پیش کرتے تھے۔ باچاخان کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ ایک دفعہ جب اس کو انگریز سرکار نے گرفتار کیا، تو اس کے بعد چالیس ہزار خدائی خدمتگاروں نے رضاکارانہ طور پر گرفتاریاں دے دیں اور  اپنے تنظیمی اجلاس میں یہ قرارداد پاس کیا کہ کوئی بھی  حکومت کو ضمانت نہیں دے گا۔

اس مختصر تمہید باندھنے کا مقصد یہ تھا کہ جب سے عمران خان  کو عدم اعتماد کے ذریعے وزرات عظمیٰ سے ہٹایا گیا ہے تو کپتان صاحب ہر دن نئے نئے ڈرامے کررہی ہیں، کبھی اسمبلیاں توڑتے ہیں، کبھی قومی اسمبلی میں اجتماعی استعفے دیتے ہیں، کبھی دوبارہ استعفے منظور نہ کرنے کیلئے عدالتوں سے رجوع کرتا ہے۔ رضاکارانہ طور پر استعفے دینے کے بعد ضمنی الیکشن کو بھی اپنی پارٹی کے امیدوران کھڑا کردیتا ہے۔مختصراً یہ کہ ہر روز ایک نیا یوٹرن لیتا ہے۔ ایک نیا ڈراما رچاتا ہے۔موصوف نے اس ہفتہ بھی ایک نیا ڈرامہ رچایا ہوا ہے اور ”جیل بھرو تحریک“ کا آغاز کرچکا ہے۔ لیکن موصوف نے خود گرفتاری کے ڈر سے گزشتہ تین مہینوں سے زمان پارک ہاؤس کے سامنے کارکنان کو چوکیداری پر لگایا ہوا ہے اور 20فروری کو عدالت سے ضمانت بھی لے لیا، لیکن کارکنان کو جیل بھرنے کے تاکید کررہا ہے اور کارکنان نے بھی گزشتہ تین چار دنوں سے ریاست کو ڈرامہ بنایا ہوا ہے۔ پولیس کے وین کے ساتھ ویکٹری کا نشان بناکرکے تصویر کھینچواتے ہے اور پھر بھاگتے۔کبھی جلوس کے شکل میں جیلوں کو جاتے ہیں اور پولیس وینوں پر چڑھ کر نعرے لگاتے ہیں اور  جیلوں کے سلاخوں کے ساتھ تصویریں کھینچ  کر پھر گھروں کو لوٹ جاتا ہے۔موسمی کامریڈوں نے  مزاحمتی سیاست کو مزاق بنایا ہوا ہے۔ مزاحمتی سیاست میں بھاگنا نہیں ہوتا ہے۔ میدان پر ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔

میری نزدیک کپتان صاحب  کو کوئی خطرناک نفسیاتی بیماری لاحق ہوچکا ہے اور اس بیماری میں اپنے آپ کے ساتھ کارکنان کو بھی شریک کررہا ہے۔ مجھے تو گیدڑ کا وہ کہانی یاد آتی ہے کہ ایک دفعہ کسی جگہ میں لوگوں نے گیدڑ کو گھیرے لے لیا تو گیدڑ نے چیخیں مارنا شروع کردیا کہ اگر مجھے مارا گیا تو قیامت آئیگا۔ تو لوگوں نے قیامت کے ڈر سے گیدڑ کو چھوڑ دیا، جب گیدڑ ذرا دور بھاگا تو لوگوں کو کہا کہ میرے مارنے سے دوسروں پر قیامت نہیں آتا تھا لیکن مجھ پر تو آتا تھا۔عمران خان کا حال بھی اس گیدڑ کے طرح ہے۔ وزرات عظمٰی سے ہٹانے کے بعد موصوف  پاگل بن چکا ہے اور پاکستانی سیاست میں عدم استحکام پیدا کرنا چاہتا ہے، بلکہ اپنی کرسی کیلئے پاکستان کے وجود پر بھی سودا کرنے کیلئے تیار ہے۔

مجھے اسفندیارولی خان کے وہ بات یاد آتی ہے کہ ”جب سے کپتان آیا ہے، سیاست سے شائستگی ختم ہوچکا ہے“ سیاست ایک مقدس پیشہ ہوا کرتا تھا لیکن موصوف نے سیاست کو اتنا بدنام کردیا کہ شریف آدمی کو سیاست کے نام سے ڈر لگتا ہے۔ گالم گلوچ، عدم برداشت، ویڈیو لیکس اور دیگر غلیظ کام سیاست میں کپتان اور پی ٹی آئی کا کارنامہ ہے۔ سیاست تو مکالمہ، دلیل، اخلاق سے شکست دینا اور مخالف کو اپنے کردار سے زیر کرنے کا نام ہے۔ عمران خان نے جو راستہ اختیار کیا ہے اور جس چیز کو سیاست کہہ رہا ہے، یہ سیاست نہیں شاؤنزم ہے۔ یہ عدم برداشت ہے۔ یہ معاشرہ کو آن پولرٹی کے طرف لے جایا جارہا ہے۔ ایسے رویوں کو سیاست میں ترک کرنا ہوگا اور سیاست کو اصل روح کے ساتھ دوبارہ مقدس خطوطوں پر استوار کرنا ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button