باجوڑ کے بےروزگار نوجوان کی خودکشی

مائیکرو بیالوجی میں گریجویٹ ذاکر اللہ نے بظاہر ذہنی سکون کے لیے چرس کا استعمال شروع کیا اور بلا آخر خود کشی کر لی۔
ہر شہری کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا حکومتِ پاکستان کی اولین ذمہ داری ہے۔ ہم نے اپنے حاکموں سے بار بار سنا کہ پاکستانی نوجوانوں میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں۔ پھر کیا وجہ ہے حکومت نوجوانوں کو روزگار دینے میں ناکام ہے، جو 15 سے 20 سال تک اس کے لیے تعلیم حاصل کرتے ہیں، محنت کرتے ہیں۔
ظاہر ہے ایک نوجوان اور اس کے والدین اپنا سب کچھ اس راہ میں قربان کر دیتے ہیں لیکن جب وقت آ جائے تو منزل نہیں ملتی۔ ایسے میں ایک نوجوان خود کو ڈپریشن سے بچانے کے لیے جو طریقہ میسر ہو استعمال کر بیٹھتا ہے۔
اسی کشمکش میں مبتلا ایک قبائلی نوجوان ذاکر اللہ بھی تھے، جنہوں نے چند روز قبل خود کو موت کے منہ میں دھکیل دیا۔
ذاکر اللہ باجوڑ کے علاقہ تنگی سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد عبدالمتین پرائمری سکول میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں اور اضافی وقت میں کلینک بھی چلاتے ہیں۔ ذاکر ایک دین دار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا مولانا عبدالسلام ایک جید عالم دین تھے۔
اسلام آباد کے ہسپتال کے ریکارڈ کے مطابق ذاکر اللہ نے آٹھ بجے نماز پڑھی، پھر واش روم گئے اور وہیں انہوں نے ازاربند سے باتھ روم کے شاور سے خود کو لٹکا کر زندگی کا خاتمہ کر لیا۔
اس طرح نشے کی لت نے ایک تعلیم یافتہ نوجوان کو زندہ رہنے کے حق سے محروم کر دیا۔ ذاکر اللہ کی یہ موت حکمرانوں کے منہ پر تمانچہ ہے۔
اگر حکومت کے پاس لاکھوں تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کا کوئی منصوبہ ہوتا تو شاید آج ذاکر اللہ جیسے ہزاروں نوجوان نشے کے عادی نہ ہوتے اور نہ خودکشی پر مجبور ہوتے۔
انڈپنڈنٹ اردو پر