قبائلی اضلاع میں روایتی سزاؤں کا تسلسل: تیراہ میں غیرت کے نام پر گھروں کی مسماری اور قتل

تحریر: اختیارگل
خیبر: فاٹا انضمام کے بعد قبائلی اضلاع میں مشترکہ ذمہ داری اور گھروں کی مسماری جیسی روایات کے خاتمے کے دعوے کیے گئے تھے، کیونکہ اب یہاں عدالتیں اور پولیس سسٹم موجود ہیں۔ تاہم زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔
ضلع خیبر کی وادی تیراہ میں چند ہفتے قبل ایک لڑکے اور لڑکی کی مبینہ طور پر غیر اخلاقی ویڈیوز سامنے آنے کے بعد مقامی مشران نے ان کے پورے گھروں کو جلا کر مسمار کر دیا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ نہ تو ضلعی عدالت نے اس معاملے پر کوئی نوٹس لیا اور نہ ہی ڈی پی او خیبر کی جانب سے ایف آئی آر درج کی گئی۔
ذرائع کے مطابق، مقامی مشران کے فیصلے کے بعد آج لڑکے اور لڑکی دونوں کو غیرت کے نام پر قتل بھی کردیا گیا ہے۔ تاہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ لڑکے و لڑکی کی سزا گھروں والوں کو کیو دی گئی اور گھر کیو مسمار کئے گئے ؟
ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ اگرچہ لڑکے اور لڑکی سے غلطی سرزد ہوئی ہوگی، لیکن اس کی سزا پورے خاندان کو دینا نہ اسلام میں جائز ہے اور نہ ہی آئین و قانون پاکستان میں اس کی اجازت دیتا ہے۔ ان کے مطابق ڈی پی او خیبر کی جانب سے اس معاملے پر تا حال کوئی کارروائی نہ کرنا اور ایف آئی آر درج نہ کرنا خود ایک سنگین غفلت ہے، جس پر اعلیٰ سطحی تحقیقات ہونی چاہئیں۔
اس حوالے سے پولیس کو موقف جاننے کی کوشش کی گئی تو انکے جانب سے کوئی حوصلہ افزاء جواب نہ مل سکا۔
سوالات یہ جنم لیتے ہیں کہ کس آئین،کس قانون اور کس شریعت میں لیکھا گیا ہے کہ دو افراد کے جرم کی وجہ سے انکے پورے خاندان کو سزا دی جائے اور انکے ہستے بستے گھر کو مسمار کیا جائے۔
اگر آئین پاکستان،قانون پاکستان اور شریعت میں اسکا حکم نہیں ہے تو پھر عدالت کیو خاموش ہے،خیبر پولیس و ضلعی انتظامیہ کیو خاموش ہے اور علمائے کرام کیو خاموش ہے