پاکستان کے قبائلی علاقوں میں غیرت کے نام پر قتل کی نئی شکلیں اور پرانی سوچ

تحریر: اختیارگل
پاکستان کے سابقہ فاٹا (وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات) کے علاقوں میں غیرت کے نام پر ہونے والے قتل (انر کِلنگ) کا عفریت آج بھی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے، تاہم وقت کے ساتھ اس کی شکلیں بدل رہی ہیں۔ جدید عدالتی اور قانونی اصلاحات کے باوجود، یہ سنگین سماجی مسئلہ نئی چیلنجز کے ساتھ اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔
ماضی میں، غیرت کے نام پر قتل کے واقعات زیادہ تر روایتی طریقوں سے رونما ہوتے تھے، لیکن اب اسمارٹ فونز اور سوشل میڈیا نے اس میں ایک نئی جہت شامل کر دی ہے۔ محققین اور سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ "ڈیجیٹل غیرت” یا ڈیجیٹل ہراسمنٹ اب ان واقعات کی ایک بڑی وجہ بنتی جا رہی ہے۔ موبائل فون میں پرائیویٹ تصاویر یا میسجز کا لیک ہونا، یا پھر سوشل میڈیا پر دوستی کو "غیرت” کے متصادم ہونے کے طور پر پیش کرنا، نوجوان لڑکیوں کی جان لے رہا ہے۔
حال ہی میں، جنوبی وزیرستان کے ایک گاؤں میں ایک نوجوان لڑکی کو اس کے بھائی نے قتل کر دیا، کیونکہ اس پر ایک لڑکے کے ساتھ فون پر بات کرنے کا الزام تھا۔ اسی طرح، ڈیرہ اسماعیل خان کے قریب ایک واقعے میں، ایک لڑکی کے قتل کی وجہ اس کا ایک مرد دوست کے ساتھ سوشل میڈیا پر تصویر شیئر کرنا بتائی گئی۔ یہ واقعات اس نئی خطرناک روایت کی عکاسی کرتے ہیں جہاں ڈیجیٹل رابطہ ہی موت کا پروانہ ثابت ہو رہا ہے۔
قانونی تبدیلیاں اور زمینی حقائق:
۲۰۱۸ میں قبائلی علاقوں کے مرکزی دھارے میں ضم (مerger) کے بعد، وہاں پاکستان کے آئین اور قوانین کا نفاذ عمل میں آیا۔ اس سے پہلے، فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (FCR) کے تحت ایسے مقدمات کی تفتیش اور سزا کا عمل انتہائی سست اور غیر موثر تھا۔ اب، ان علاقوں میں بھی پاکستان کے Penal Code کے تحت مقدمات درج ہو رہے ہیں، جس میں غیرت کے نام پر قتل کی سزا زیادہ سخت ہے۔
تاہم، زمینی حقائق اب بھی انتہائی پیچیدہ ہیں۔ زیادہ تر واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے، یا پھر انہیں حادثے یا خودکشی کے طور پر پیش کر دیا جاتا ہے۔ قبائلی جرگے اکثر متاثرہ خاندان کو "صلح” پر مجبور کرتے ہیں، جہاں قاتل خاندان سے معاوضہ (دیت) لے کر مقدمہ واپس لے لیا جاتا ہے۔ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ‘خواتین قافلہ’ کی کارکن ثناء کا کہنا ہے کہ "قبائلی علاقوں میں اب بھی غیر رسمی عدالتیں (جرگے) ہی طاقتور ہیں۔ خواتین کو انصاف دلوانے کے لیے ہمیں خاندانی دباؤ، دھمکیوں اور سماجی بائیکاٹ جیسے مسائل کا سامنا ہے۔”
نوجوان نسل میں تبدیلی کی لہر:
ایک امید کی کرن یہ ہے کہ نوجوان نسل، خاص طور پر تعلیم یافتہ نوجوان، اس پرانی سوچ کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر مہمات چلائی جا رہی ہیں اور مقامی سطح پر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس روایت کے خلاف بولنے کی ہمت کر رہے ہیں۔ضلع خیبر کے رہائشی اور یونیورسٹی طالب علم کامران احمد کا کہنا ہے کہ "ہماری نسل جاگ رہی ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے معاشرے کا نام غیرت کے نام پر ہونے والے قتل سے جڑے۔ یہ ہماری مذہبی روایات کے بھی خلاف ہے، جہاں کسی کو بغیر ثبوت کے الزام لگانا یا سزا دینا حرام ہے۔”
حکومتی اقدامات اور مستقبل کا راستہ:
حکومت خیبر پختونخوا اور مقامی انتظامیہ نے ایسے واقعات کو روکنے کے لیے کچھ اقدامات کیے ہیں، جیسے کہ ہیلپ لائنز کا قیام، آگاہی مہمات چلانا اور پولیس کی خصوصی تربیت۔ لیکن ماہرین کا ماننا ہے کہ صرف قانونی اقدامات کافی نہیں ہیں۔ اس کے لیے ایک طویل المدتی اور وسیع پیمانے پر سماجی و تعلیمی مہم کی ضرورت ہے، جس کا مقصد نہ صرف نوجوانوں بلکہ بزرگوں اور قبائلی رہنماؤں کی سوچ کو بدلنا ہو۔
غیرت کے نام پر قتل کا یہ المیہ صرف ایک خاندان یا عورت کی موت نہیں ہے، بلکہ پورے معاشرے کے اخلاقی اور اقداری زوال کی علامت ہے۔ جب تک ان علاقوں میں تعلیم کی روشنی نہیں پھیلے گی اور انسانی جان کی sanctity کو غیرت کے نام پر جائز قرار دینے والی سوچ کو چیلنج نہیں کیا جائے گا، تب تک ایسے واقعات کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے گا