تازہ ترینصحت/تعلیم

خواتین کی تعلیم: قبائلی علاقوں میں ترقی کی کنجی

پاکستان کے قبائلی علاقوں میں خواتین کی تعلیم کو عام کرنا محض ایک سماجی مسئلہ نہیں بلکہ قومی ترقی اور معاشرتی سالمیت کے لیے ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ یہ وہ بنیاد ہے جس پر پائیدار امن، معاشی خوشحالی اور روشن مستقبل کی عمارت کھڑی ہو سکتی ہے۔

معاشی خودمختاری کا ذریعہ

تعلیم یافتہ خواتین نہ صرف اپنے خاندان کی آمدن میں اضافہ کر سکتی ہیں بلکہ معاشرے کی معاشی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق، اگر تمام لڑکیاں ثانوی تعلیم مکمل کر لیں تو ترقی پذیر ممالک کی سالانہ شرح نمو میں 10 فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ قبائلی علاقوں میں، جہاں غربت ایک بڑا چیلنج ہے، خواتین کی تعلیم خاندانوں کو غربت کے دائرے سے نکالنے کا ایک طاقتور ذریعہ ثابت ہو سکتی ہے۔

صحت اور بہبود میں بہتری

ایک تعلیم یافتہ ماں اپنے بچوں کی صحت اور تعلیم کے بارے میں زیادہ بہتر فیصلے کر سکتی ہے۔ یونیسیف کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ایک تعلیم یافتہ ماں کے بچوں کے صحت مند اور تعلیم یافتہ ہونے کے امکانات پانچ گنا زیادہ ہوتے ہیں۔ قبائلی علاقوں جہاں صحت کی سہولیات تک رسائی محدود ہے، وہاں ایک خواندہ خاتون ہی ویکسینیشن، صاف پانی کے استعمال اور غذائیت جیسے اہم مسائل پر اپنے خاندان کی رہنمائی کر سکتی ہے۔

سماجی تبدیلی اور بااختیاری

تعلیم خواتین کو ان کے حقوق سے آگاہ کرتی ہے اور انہیں سماجی اور گھریلو تشدد کے خلاف آواز اٹھانے کے قابل بناتی ہے۔ یہ انہیں معاشرے میں فعال شراکت دار بننے کا موقع دیتی ہے۔ قبائلی معاشروں میں، جہاں خواتین اکثر روایتی پابندیوں کا شکار ہیں، تعلیم انہیں بااختیار بنا کر ان پابندیوں کو توڑنے میں مدد دے سکتی ہے۔

امن اور برداشت کی فضا

تعلیم انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف ایک موثر ہتھیار ہے۔ تعلیم یافتہ خواتین نہ صرف اپنے بچوں میں برداشت اور رواداری کے جذبات پروان چڑھاتی ہیں بلکہ وہ گھر کے اندر سے انتہا پسندی کے خلاف ایک مضبوط دیوار بھی کھڑی کرتی ہیں۔ یونیسکو کے مطابق، ثانوی تعلیم میں ہر ایک فیصد اضافہ کسی بھی ملک میں تنازعے کے خطرے کو 20 فیصد تک کم کر سکتا ہے۔

حکومتی کوششیں اور مستقبل کے چیلنجز

خیبر پختونخوا حکومت نے قبائلی علاقوں میں لڑکیوں کے اسکولز کی تعمیر نو اور اساتذہ کی تربیت پر خصوصی توجہ مرکوز کی ہے۔ صرف ضلع خیبر میں گزشتہ تین سالوں میں لڑکیوں کے لیے 15 نئے اسکول کھولے گئے ہیں۔ تاہم، اسکولوں تک رسائی، اساتذہ کی کمی اور روایتی رکاوٹیں اب بھی بڑے چیلنجز ہیں۔

نتیجہ

حقیقت یہ ہے کہ قبائلی علاقوں میں خواتین کی تعلیم کو ترجیح دینا ہمارے قومی مفاد میں ہے۔ یہ نہ صرف انفرادی خواتین بلکہ پورے خاندانوں، برادریوں اور بالآخر پورے ملک کی ترقی کی ضمانت ہے۔ جب ایک لڑکی پڑھتی ہے، تو وہ پورے قبیلے کو روشنی دیتی ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم اس روشنی کو پھیلنے دیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button