ریاست سوات ایک خودمختار "نوابی ریاست” جو 1947 سے 1969 تک

ریاست سوات ایک خودمختار "نوابی ریاست” تھی جو 1947 سے 1969 تک پاکستان کے اندر ایک نیم خود مختار حیثیت میں قائم رہی۔ میاںگل جہانزیب کے دور میں ریاست سوات کا مالیاتی نظام نہایت مؤثر اور خود کفیل تھا۔ ریاست کے بنیادی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے مختلف ذرائع آمدن تھے، جنہیں منظم اور سادہ طریقے سے چلایا جاتا تھا۔
✅ ریاست سوات کی آمدنی کے اہم ذرائع:
- زرعی ٹیکس (مالیہ/عشر)
سوات ایک زرعی علاقہ ہے، جہاں گندم، مکئی، چاول اور سبزیاں پیدا ہوتی تھیں۔
کسانوں سے عشر یا مالیہ کی صورت میں معمولی شرح پر ٹیکس لیا جاتا تھا، جو ریاستی خزانے کا اہم حصہ بنتا تھا۔
- جنگلات سے آمدنی
سوات کے گھنے جنگلات (دیودار، چیڑ وغیرہ) قیمتی لکڑی کی وجہ سے آمدنی کا بڑا ذریعہ تھے۔
لکڑی کی کٹائی، نیلامی، اور ریاستی نگرانی میں فروخت سے خطیر رقم حاصل ہوتی تھی۔
- معدنیات
سوات میں زمرد اور دیگر معدنیات کی موجودگی ریاستی خزانے میں اہم اضافہ کرتی تھی۔
ان معدنیات کی کان کنی ریاست کی زیر نگرانی ہوتی تھی۔
- کاروبار و بازار ٹیکس
دکان داروں، کاریگروں اور بازاروں سے لائسنس فیس یا معمولی ٹیکس وصول کیا جاتا تھا۔
ریاستی سرکاری افسران کی نگرانی میں یہ سب کچھ منظم طریقے سے ہوتا تھا۔
- محاصلِ سیاحت
بدھ مت کے آثار، خوبصورتی، ہوٹلز اور مہمان خانوں سے سیاحوں کی آمدن سے بھی ریاستی خزانے کو فائدہ ہوتا تھا۔
✅ مالی نظم و نسق کیسے چلتا تھا:
- سادہ اور منظم بجٹ نظام
میاںگل جہانزیب کے دور میں ہر سال بجٹ ترتیب دیا جاتا تھا۔
اخراجات کا زیادہ حصہ تعلیم، صحت، سڑکوں، اور عوامی بہبود پر ہوتا تھا۔
- بدعنوانی کا سخت خاتمہ
ریاست میں کرپشن یا رشوت کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ مالی حسابات کا سخت آڈٹ ہوتا تھا۔
ریاستی اہلکار ایماندار اور خود مختار تھے، بدعنوانی پر فوری کارروائی کی جاتی تھی۔
- غیر ملکی امداد یا قرضے کا انکار
سوات کی ریاست کبھی بھی غیر ملکی قرضوں یا بیرونی امداد پر انحصار نہیں کرتی تھی۔
ریاست کے اندرونی وسائل ہی سے تمام اخراجات پورے کیے جاتے تھے۔
📌 دلچسپ حقیقت:
ریاست سوات کے خزانے میں اتنی بچت تھی کہ بعض اوقات دیگر قبائلی علاقوں یا ضرورت مندوں کو مالی امداد بھی دی جاتی تھی۔