گلیشئر کی اہمیت اور اس کا غیر معمولی پگھلاؤ کتنا خطرناک ہے؟

ماہرین کے مطابق گلیشئر برف کے اس پہاڑ کو کہتے ہیں جو سردی کے موسم میں ایک خاص درجہ حرارت پر بنتی ہے۔یہ وہاں پر بنتی ہے جہاں پر بہت زیادہ برف باری ہوتی ہے۔ یہ ہلکی برف باری پھرایک مضبوط تہہ میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اور جہاں پر درجہ حرارت منفی سنٹیی گریڈ یعنی نقطہ انجماد پر ہو۔ تو وہاں پر برف جم جاتی ہے جس سے برف پہاڑ کی شکل اختیار کرتی ہے۔ دنیامیں ان علاقوں میں یہ گلیشئرز موجود ہیں۔
جہاں پر درجہ حرارت نقطہ انجماد پر ہو۔ دنیا میں زیادہ تر گلیشئر انٹارکٹیکا میں پائی جاتی ہے کیونکہ وہاں پر پورا سال درجہ حرارت نقطہ انجماد پر ہوتا ہے۔ جبکہ پاکستان میں گلیشئر ہمالیہ،قراقرم اور ہندووکش کے پہاڑی سلسلوں میں پائے جاتے ہیں۔ ان علاقوں میں سوات کے کالام،چترال کے بروغل اور گلگت کے سکردو اور سیا چن میں پائے جاتے ہیں اور قبائلی علاقوں میں تیرہ اور کرم میں سپین غر میں کچھ جگہوں پر موجود ہیں۔ بغض اوقات اس گلیشئر کے اچانک گرنے سے کئی قیمتی انسانی جانیں ضائع ہو تی ہیں۔

2012 میں گیاری سیکٹر میں برفانی تودہ گرنے سے پاک فوج کے بیس کیمپ میں 120سے زیادہ جوان شہید ہو ئے تھے اور19فروری 2017 کولوری ٹنل میں بھی ٹنل میں کام کرنے والے انجینئرز کے کیمپ پر بھی برفانی تودہ گرنے سے 7افراد شہید ہوئے تھے اور 7 کے قریب زخمی ہوئے تھے۔ اسی طرح گلیشئرز کے اچانک گرنے کے بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں پر رہنے والے لوگوں کے لائیوسٹاک کو بھی نقصان پہنچ جا تا ہے اور آمد ورفت میں بھی ان علاقوں کے لوگوں کو بہت مشکلات کا سامنا پڑتا ہے۔
ان علاقوں کے لوگ سردیوں کے موسم میں گھروں میں محصور ہو تے ہیں۔ سردیوں کے موسم میں ان علاقوں کے لوگ اکثر خوف میں مبتلا ہوتے ہیں کیونکہ اس کے اچانک گرنے سے اس کے کاروباری زندگی مفلوج ہوتی ہے کیونکہ اس سے راستے بند ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر ایک طرف گلیشئرزکے قریب رہنے والوں کو مشکلات کا سامنا ہوتا ہے تو دوسری طرف یہ گلیشئرز ملک کے معاشی ترقی میں ایک اہم کردار ادا کررہا ہے۔ گلیشئرز کو کوہ پیمائی کے لئے بھی کوہ پیماہ استعمال کرتے ہیں اور سیاحوں کے لئے بھی کشش رکھتی ہے کالام میں مٹلتان سے آگے اشوہ گلیشئر سیاحوں کے دلچسپی کا مرکز ہے اور ہر سال ملک کے کونے کونے سے ہزاروں سیاح اس کے دیکھنے کے لئے آتے ہیں اگر چہ موسمیاتی تبدیلی کے وجہ سے اس کے پگھلاؤ میں اضافہ ہوا ہے۔
ان گلیشئرز کو سیاحوں کے آمد سے بھی پا کستان کو خاص زرمبادلہ حاصل ہو رہی ہے اگر چہ سہولیات کی کمی کے وجہ سے سیاحوں کی آمد اسی طرح نہیں جس طر ح ہونی چاہئے لیکن پھر بھی اس کا ایک اہم کردار ہے۔ گلیشئرز سے ملکی معیشت کا پہیہ رواں دواں ہیں۔کیو نکہ یہی گلیشئر ز ہے
جس سے ہمارے دریاؤں میں پانی کی سطح برقرار رہتی ہے۔ اور گرمیوں کے موسم میں اس سے زراعت کو اور ڈیموں کو مناسب مقدار میں پانی ملتی ہے۔ لیکن بغض اوقات گرمیوں کے موسم میں اس کی پگھلاؤ میں غیر متوقع طور پر اضافہ ہو جاتا ہے جس سے دریاؤں میں پانی کا سطح بلند ہونے سے سیلاب کی صورت اختیار کر جاتی ہے اور نہ صرف یہ کے اس سے بڑے پیمانے پر زراعت کو شدید نقصان پہنچ جاتا ہے بلکہ قیمتی انسانی جانیں بھی ضائع ہو جاتی ہے۔
سائنسی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے وجہ سے شمال میں واقع مغربی گلئشئر ز کے مقابلے میں مشرقی گلیشئرز جلدی سے پگھل رہے ہیں۔ پاکستان میں دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ دوسرے معاون دریا اس گلیشئرز کے وجہ سے رواں دواں ہیں۔ ماہرین یہ کہتے ہیں کہ شمالی علاقہ جات میں اتنے گلیشئرز موجود ہیں ۔ جو دنیا کہ موجود ذخائرمیں سب سے زیادہ ہیں۔ ان گلیشر ز کو موجودہ وقت میں موسمیاتی تبدیلی کے وجہ سے شدید خطرہ لاحق ہے۔

اگر دیکھا جائے تو انٹارکٹیکا میں برف پگھلنے کا عمل تیزی سے جاری ہے جس کے وجہ سے گلیشئر ز میں کمی واقع ہو ری ہے اسی طرح ہمارے شمالی علاقوں میں بھی اس کے پگھلنے میں اضافہ ہوا ہے اگر ایک طرف اس سے دریاوں میں پانی کا سطح برقرار ہو گی۔ تودوسری طرف اس سے پانی کے ذخائر میں کمی واقع ہو گی اور ہم پانی کے ذخائر سے محروم ہو رہے ہیں۔جس سے پھر ہم کوپانی کے بحران کا سامنا ہوگی کیونکہ جب برف ختم ہوگی تو ظاہر ہے کہ اس سے پانی کی شدید کمی ہوگی۔ اور اس سے سیلابوں کا بھی شدید خطرہ لاحق رہتا ہے۔
اب اس گلیشئرزکے تحفظ اور اس کے پگھلنے کے عمل اور نقصانات کو کم کرنا کسی ایک فرد یا ملک کے بس کی بات نہیں ہے اس میں ہر فرد ہر ملک کو اکٹھے کا م کرنا ہو گا۔ ہر ایک فرد اور ملک کو چاہئے کہ وہ اجتماعی طور پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے کئے ہنگامی بنیادوں پر زیادہ سے زیادہ درخت لگا ئے تاکہ اس طرح وہ کاربن کے برے اثرات کو کم کریں اوراسی طرح زہریلی گیسوں کا خراج کم سے کم کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ پانی کو ضائع ہو نے سے بچانے کے لئے ڈیم بنائے جائے اور پانی کو محفوظ کیا جائے تاکہ زمین کے اندر پانی کا سطح بلند ہو جائے۔ ان قدامات کے زریعے ہم پانی کے بارے میں کسی بھی بحرانی کیفیت سے بچ سکتے ہیں۔