ماحولیات

موسمیاتی تبدیلی نے سوات کے کاشتکارسیف الرحمن کے سالوں کی محنت لمحوں میں برباد کردی

شاہ خالد شاہ جی

 ضلع سوات کے تحصیل مینگورہ کے گاؤں ملک آباد جو گیڑے کے سیف الرحمن کو بلکل یہ یقین نہیں تھا کہ ان کے آباواجداد کے وقت سے حصہ داری پر کاشت کرنے والی9  جریب زرعی زمین پر کھڑی لاکھوں روپے چاول کی فصل سے وہ چند لمحوں میں تباکن سیلاب محروم کریگا۔ کیونکہ انہوں نے اپنے بزرگوں سے لیکر اب تک اس طرح کا تباکن سیلاب نہیں دیکھا تھا جو ان کے محفوظ زرعی زمینوں تک پہنچا ہوں۔ لیکن انہوں نے پہلی بار اس طرح کا سیلاب اپنے آنکھوں سے دیکھا جس کی مثال نہیں ملتی۔

سیف الرحمن نے کہا کہ انہوں نے ہر سال کی طرح رواں سال بھی اپنی زمین پر چاول کی مقامی تخم کاشت یعنی اس کی بویائی کی تھی جس کو کچھ لوگ چائینہ چاول بھی کہتے ہے کیونکہ یہ جسامت میں چھوٹے ہوتے ہیں اور اس کی پیداوار زیادہ ہوتی ہے۔ فصل کے لئے کھیتوں کے تیاری پر پچھلے سال کے مقابلے میں زیادہ خرچہ کیا کیونکہ موجودہ وقت میں ٹریکٹرز، کھاد اورتخم کی پنیری کا خرچہ تین گناہ بڑھ چکا ہے۔اس سیزن میں انہوں نے چاؤل کے فصل پر تین لاکھ روپے کا خرچہ کیا تھا۔ ان کھیتوں سے ان کو صرف چاول کی 240من پیداور ہوتی ہے۔ تاہم  رواں سیزن میں اس فصل سے ان کو توقع تھی کہ پیداوار  300من سے اوپر ہوگی جس سے ان کی معاشی زندگی میں بہتری آئیگی۔ لیکن تباکن سیلاب نے سب کچھ برباد کردیا۔ ہمارے سارے امیدیں خاک میں مل گئے۔

ضلع سوات میں سیف صرف اکیلا کاشت کار نہیں کہ جس کی فصل سیلاب کی وجہ سے تباہ ہوئی ہے بلکہ یہی حال سوات کے 90فیصد زمینداروں کا ہے۔ان کے بقول ان کے زرعی زمینوں کو دوبارہ قابل کاشت بناے میں کئی سال لگیں گے۔ کیونکہ 2010 کے سیلاب میں ان کی جو زرعی زمینیں تباہ ہوئے تھے اس کی بحالی میں کئی سال لگ گئے تھے۔

 محمد سعید کا تعلق بھی ضلع سوات مینگورہ کے گاؤں پیر امان ڈھیری سے ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس نے ایک زمیندار کے پانچ جریب زرعی زمین سالانہ اجارہ پر لے رکھی ہے۔جس پرچاؤل کی بویائی کی تھی جس پر موجودہ وقت میں چاول کی فصل موجود تھی جو آخری مراحل میں تھی۔ لیکن اس تباکن سیلاب کی وجہ سے مکمل طور پر تباہ ہوئی ہے۔ اسی طرح ان کے خاندان کے کل چالیس جریب زمین پر چاول کی فصل موجود تھی جو سیلاب کی وجہ سے ملیامیٹ ہو چکی ہے۔ 

محکمہ زراعت توسیع اپرسوات کے فراہم کردہ معلومات کے مطابق ضلع سوات کے اپر اور لوئیر میں تحصیل بحرین، چارباغ، خوازہ خیلہ، مٹہ  بریکوٹ، بابوزئی اور کبل میں کل 7943  ہیکٹر رقبے پر چاول کاشت ہوتی ہے۔ جس میں زیادہ تر فخر ملا کنڈ تخم کاشت ہو تی ہے جو اچھی پیداوار دیتی ہے۔ سوات میں سالانہ 784768 من چاول کی پیداوار ہوتی ہے۔ سوات میں ارنائی، بروائی اور دریائے سوات کے ساحلی علاقوں پر چاول کاشت ہوتی ہے۔ زیادہ تر پیداوار دریائے سوات کے دونوں جانب واقع زرعی زمینوں پر ہوتی ہے کیونکہ اس کے آبپاشی کے لئے مناسب مقدار میں پانی دستیاب ہوتی ہے۔دریا کے آس پاس والے زمینوں کو کو مقامی زبان میں شولگر کہتے ہے۔ لیکن ان زمینوں کو چاول کے فصل کے دوران سیلاب کے خطرے کا سامنا رہتا ہے۔ رواں مون سون میں غیرمتو قع طور پر مون سون میں زیادہ بارشوں کی وجہ سے دریائے سوات میں سیلابی ریلے کی وجہ سے دونوں جانب موجود چاول کی کھڑی فصلوں کو اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔ جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر کاشت کاروں کا نقصان ہوا۔

ضلع سوات کے محکمہ زراعت کے فراہم کردہ معلومات کے مطابق ضلع سوات میں 188570 خاندان زراعت کے پیشے سے وابستہ ہے جو رجسٹرڈ کاشت کار ہے۔جس میں   47000چاول کے کاشتکار ہے۔موجودہ سیلاب سے سوات میں 2240   ہیکٹر رقبے پرچاول کی فصل تباہ ہو ئی ہے۔ جس کی وجہ سے سوات چاول کی پیداوار میں 210429  من کمی کا سامنا ہوگا۔ جو نہ صرف کاشتکاروں کے مالی مشکلات میں اضافہ کریگا بلکہ اس سے خوراک کی کمی بھی پیدا ہوگی۔سوات میں لوگ کو یہ توقع نہیں تھی کہ دوبارہ 2010 کی طرح سیلاب آئیگا لیکن 26اگست2022  کو آنے والے سیلاب نے پچھلے تمام سیلابوں کے ریکارڈ توڑ دئیے۔

 ڈسٹرکٹ ڈائریکٹر محکمہ زراعت توسیع اپر سوات افتخار احمد کے مطابق حالیہ تباکن سیلاب 2010میں آنے والے سیلا ب سے کئی گناہ زیادہ تھا اس نے بڑے پیمانے پر سوات میں زراعت کے شعبے کو نقصان پہنچایا ہے۔ جس میں زیادہ نقصان چاول کے فصل کو پہنچاہے جو مکمل پر تباہ ہوچکی ہے۔ اس نقصان کے اثرات دوررس ہونگے۔ ان زرعی زمینوں کے دوبارہ بحالی میں کئی سال لگے گی۔ کیونکہ سیلاب کے وجہ سے زمین سے ایسے مرکبات سیلاب میں بہہ جاتے ہیں جو زمین کے زرخیزی کے لئے بہت ضروری ہوتی ہے۔

 محکمہ آبپاشی خیبر پختونخوا ہ کے مطابق رواں سال سوات اور دیرسے نکلنے والے دریاؤں میں 2010کے مقابلے میں زیادہ پانی آیا تھا۔ ادارے کے پشاور کنال کے ایگزایکٹو انجینئرشرین نے کہاکہ بارہ سال بعد سیلاب میں سوات اور پنجکوڑہ میں 45فیصد زیادہ پانی آیا ہے۔ خوازخیلہ کے مقام پر دو لاکھ 47ہزار کیوسک پانی ریکارڈ کیا گیا جبکہ دس سال پہلے ایک لاکھ 75ہزار کیوسیک تھا۔ اُن کے بقول پنجکوڑہ میں رواں سال ایک لاکھ 39ہزار کیوسک تھا جبکہ 2010میں ایک لاکھ دس ہزار کیوسک ریکارڈکیا گیا تھا۔

محمد کے مطابق سوات میں 80فیصد لوگوں کی اپنی زمین نہیں ہے اور زیادہ تر وہ دوسرے زمینداروں یعنی صاحب جائداد لوگوں کی زمینیں اجارہ پر کاشت کر تی ہے۔ یہاں کے لوگ بہت محنت کش اور کھیتی باڑی سے محبت کرتے ہیں اس لئے سوات کے چاول اور پھل پورے پاکستان اور بیرونی ممالک میں مشہور ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک من سواتی چاول کی قیمت 3500 روپے ہوتی ہے جس سے کاشت کاروں کو اپنی محنت کا پھل ملتا ہے۔ لیکن سیلاب نے ہم سب کاشت کاروں سے منہ کا نوالہ چھین لیا۔ اب دوبارہ ان زمینوں کو قابل کاشت بنانا ہمارے لئے ممکن نہیں ہے اس لئے حکومت کو چاہئے کہ وہ ہنگامی بنیادوں پر ہم تمام کاشتکاروں کے ساتھ امداد کریں۔تاکہ ہم ایک دفعہ پھر اپنے زمینوں کو قابل کاشت بنا سکیں۔

سیف نے بتایا کہ وہ سال ہاسال سے حصہ داری پر کاشت کاری کرتے ہیں جس سے وہ اپنا گزر بسر کررہے ہیں۔ لیکن تباکن سیلابوں نے ان کو مالی طور پر دیوالہ کردیا ہے۔ اب ان کے پاس کچھ بھی نہیں بچا۔ اس لئے حکومت کو چاہیے کہ ان کے ساتھ مالی امداد کریں تاکہ وہ دوبارہ کاشتکاری کے قابل ہو جائیں۔

 افتخار نے بتایا کہ محکمہ زراعت توسیع سوات نے ایری گیشن اور محکمہ جنگلات کے ساتھ مشترکہ طور پر حال ہی میں ایک سروے کیا ہے جس کے نتیجے میں تمام نقصانات کا اندازہ لگایا ہے۔ اب صوبائی حکومت،صوبائی وزیر زراعت، سیکرٹری اور ڈی جی زراعت کوششیں کررہی ہے کہ سوات میں زرعت کے دوباربحالی کے لئے  اپنے موجودہ وسائل کے علاوہ امدادی اداروں کے ساتھ بھی رابطوں میں ہے تو جلد انشاء اللہ ہم تمام متاثرہ کاشتکاروں کے ساتھ جلد ہر ممکن تعاون کرینگے۔

  دوسری طرف موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کو کم کرنے کے لئے صوبائی حکومت نے ضلع سوات کے لئے ایک پانچ سالہ منصوبہ منظور کیا ہے جس پر کام جاری ہے تو اس کے تحت بھی یہ کوشش ہو رہی جس میں کاشت کاروں کو تربیت،سیلابوں کے روک تھام کے لئے پروٹیکشن وال کی تعمیر،جنگلات کی کٹائی کی روک تھام اور مقامی لوگوں میں موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں اگاہی پیدا کرنا شامل ہے۔ تاکہ مستقبل میں قدرتی آفات سے کم سے کم نقصان ہو۔

 افتخار کا مزیدکہنا تھا کہ موجودہ سیلاب کے کئی محرکات ہے لیکن جو سب سے بڑا ہے ایک محرک ہے وہ نیچریعنی فطرت کو ہم نے اپنے ہاتھوں

 سے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ زرعی زمینیں، پہاڑوں پر بے دریع اور بے ترتیب تعمیرات زورو شور سے جاری ہے جبکہ آبی گزرگاہوں  کو بھی تعمیرات سے بند کیا ہے جو اس تباہی کے اسباب ہیں۔

ہم نے نیچرسے براہ راست جنگ شروع کیا ہے جس کے یہ نتائج ہم بھگت رہے ہیں۔ اگر ہم نے اجتماعی اور انفرادی طور پر اس کے روک تھام کے لئے اقدامات نہیں اٹھائے تو اس سے اور بھی زیادہ تباکن سیلاب اور دوسرے آفات کے لئے ہمیں تیار رہنا ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button