کالم /بلاگ

سیاسی عدم برداشت کی وجوہات اور معاشرے پر اس کے اثرات

تحریر : وقاص آحمد

قومیں مختلف ادوار میں آزمائشی تجربات سے گزرتی رہتی ہیں اور ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے والے ہی حال اور مستقبل میں ایک باوقار مقام پاتے ہیں پاکستان کا سیاسی ماحول بدقسمتی سے کبھی بھی مثالی نہیں رہا اسی کا نتیجہ ہے کہ بار بار جمہوری عمل کا تسلسل ٹوٹتا رہا مگر اس سے بھی بڑھ کر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان ماضی کی غلطیوں اور تلخیوں کے نتائج سے سبق نہیں سیکھ پاتے اور اسکا عملی مظاہرہ ہم جاری صورتحال کے اثرات کی صورت میں دیکھ رہے ہیں سیاست ایک جہد مسلسل‘ برداشت اور تجربات کا نام ہے اور سیاسی قائدین نہ صرف نظام حکومت چلاتے ہیں بلکہ وہ افراد قوم اور معاشرے کی تشکیل میں بھی بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔

سیاسی عدم برداشت ایک ایسا رجحان ہے جس میں افراد یا گروہ مختلف سیاسی نظریات، خیالات، یا جماعتوں کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ یہ معاشرتی امن و سکون کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور تشدد و شدت پسندی کی طرف لے جا سکتا ہے۔ جب لوگ ایک دوسرے کے سیاسی خیالات یا جماعتوں کو نہ صرف غلط سمجھتے ہیں بلکہ ان کو ختم کرنےکی کوشش کرتے ہیں تو یہ تشدد کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

سیاسی عدم برداشت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب افراد یا گروہ ایک دوسرے کے سیاسی اختلافات کو برداشت نہیں کرتے اور ان کے خیالات یا نظریات کو مکمل طور پر مسترد کر دیتے ہیں۔ یہ عدم برداشت خاص طور پر اس وقت بڑھتی ہے جب افراد یا جماعتیں اپنے سیاسی نظریات کو حقیقت اور دوسرے کے خیالات کو دشمنی سمجھنے لگتی ہیں۔ جب اس صورتحال میں شدت آتی ہے، تو سیاسی مخالفین کے خلاف تشدد اور شدت پسندی کی فضا پیدا ہو جاتی ہے

سیاسی عدم برداشت کی وجوہات

نظریاتی اختلافات: جب مختلف جماعتیں یا افراد اپنے سیاسی خیالات اور نظریات میں سختی اختیار کرتے ہیں، تو وہ ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کی بجائے اپنی رائے کو حقیقت سمجھ کر دوسروں کو ملامت کرنے لگتے ہیں اور بات تشدد اور انتہا پسندی تک پہنچ جاتی ہے، جیسا کہ 2024 کے عام انتخابات کے کمپئن کے دوران ضلع باجوڑ میں سیاسی عدم برداشت کی وجہ سے  ایک شخص جان کی بازی ہار گیا ، تحصیل ناواگئ میں 8 فروری کی عام انتخابات کیلئے این اے 8 پر الیکشن کمپین کے دوران سنی اتحاد کونسل (پاکستان تحریک انصاف) کے امیدوار گل ظفر خان اور آزاد امیدوار مبارک زیب خان جو کہ موجودہ ایم این اے اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے نئے ضم شدہ اضلاع بھی ہے کے کارکنان کی درمیان نعرہ بازی اور پتھراؤ کے بعد فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں ایک دکاندار حبیب خان ولد علم خان سکنہ ناواگئ جاں بحق جبکہ چھ افراد زخمی ہوئے تھے۔

مفادات کی سیاست: بعض اوقات سیاسی جماعتیں یا شخصیات اپنے ذاتی یا گروہی مفادات کو ترجیح دیتی ہیں اور ملک کی عوامی مفاد کو نظر انداز کر دیتی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کا 2014 میں 126 دن دھرنے کی وجہ سے ملک میں پیدا کی جانے والی صورتحال کے نتیجے میں چین کے صدر شی جن پنگ نے جو سی پیک معاہدوں کو حتمی شکل دینے کے لئے 20 اپریل 2014 کو پاکستان کے دو روزہ سرکاری دورے پر آ رہے تھے, اپنا دورہ منسوخ کر دیا جس کا فائدہ بھرپور انداز میں بھارت کو ہوا کیونکہ چین کے سربراہ بھارت چلے گئے اور وہاں انہوں نے کئی ایسے معاہدے بھی دستخط کئے جو پاکستان کے ساتھ ہو سکتے تھے اور ملک کو صرف ایک شخص کی تخریبی سازش کے نتیجے میں اربوں ڈالرز کا نقصان برداشت کرنا پڑا

میڈیا کا کردار: میڈیا میں بعض اوقات سیاسی اختلافات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے، جس سے عوام میں مزید نفرت  اور دوریاں پیدا ہو جاتی ہیں جیسا کہ چند مہینے پہلے پاکستان مسلم لیگ (ن) خیبرپختونخوا کے ترجمان اختیار ولی خان اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما نعیم حیدر پنجوتھا کے درمیان 22 جنوری 2025 کو بول نیوز کے ٹاک شو "ایسے نہیں چلے گا” میں تلخ کلامی کے بعد ہاتھ پائی ہوئی، ویڈیو میں نظر آتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی قیادت کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں اور اسی دوران اختیار ولی اچانک اٹھ کر پی ٹی آئی رہنما کو نشانہ بناتے ہیں، چند ہی لمحوں میں نعیم حیدر پنجوتھا بھی سیٹ سے کھڑے ہوجاتے ہیں اور دونوں آپس میں گتھم گتھا ہو جاتے ہیں

گفتگو کا بحران: سیاسی عدم برداشت کے نتیجے میں معاشرتی سطح پر بحث و مباحثہ کا ماحول ختم ہو جاتا ہے۔ جہاں لوگ اپنے اختلافات کو تحمل کے ساتھ برداشت کرتے تھے، وہاں اب بات چیت کی بجائے تیز تر الفاظ اور تشدد کی فضا پیدا ہو جاتی ہے جیسا کہ پاکستان مسلم لیگ( ن) کے سینیٹر افنان اللہ خان اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شیرافضل خان مروت کے درمیان ستمبر 2023 کو ایکسپریس نیوز کے پروگرام ’لائیو ود جاوید چوہدری‘ میں تلخ کلامی کے بعد ہاتھ پائی ہوئی تھی، جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی، جس میں دونوں ایک دوسرے پر چیختے ہوئے سنا اور دیکھا جاسکتا ہے اور اسی دوران شیرافضل اچانک اٹھ کر افنان اللہ کو نشانہ بناتے ہیں

سیاسی عدم برداشت کا معاشرے پر اثرات

سیاسی عدم برداشت ایک پیچیدہ اور سنگین مسئلہ ہے جس کا اثر معاشرتی ڈھانچے، اداروں اور فرد کی زندگی پر پڑتا ہے۔ جب سیاسی اختلافات شدت اختیار کرتے ہیں اور تشدد یا انتہا پسندی کی شکل اختیار کرتے ہیں، تو اس کے اثرات صرف سیاسی میدان تک محدود نہیں رہتے، بلکہ پورے معاشرتی نظام کو متاثر کرتے ہیں۔ یہ اثرات معاشرتی ہم آہنگی، جمہوریت، انسانی حقوق اور معاشی ترقی پر براہ راست مرتب ہوتے ہیں

سیاست میں عدم برداشت اتنی بڑھ گئی ہے کہ اب کھیل کے میدانوں تک پہنچ گئی ہے، باجوڑ سپورٹس کمپلیکس میں باجوڑ کرکٹ لیگ کا فائنل میچ جاری تھا، ایک ٹیم سابقہ ایم این اے پاکستان تحریک انصاف گل ظفر خان کا تھا دوسری ٹیم کو موجودہ ایم این اے و معاون خصوصی وزیراعظم برائے نئے ضم شدہ اضلاع کی حمایت حاصل تھی۔ فائنل میچ جاری تھا اس دوران ایک کھلاڑی کو تھرڈ امپائر نے جب آؤٹ قرار دیا تو دونوں ٹیموں کے حامیوں میں جھگڑا ہوگیا۔ تماشائیوں نے ایک دوسرے پر لاتیں، گھونسے اور کرسیاں مارتے رہے، مشتمل شائقین وی آئی پی انکلوژر میں بھی داخل ہوگئے اور شیشے توڑ دیئے، جھگڑے کے دوران ایک شخص جاں بحق اور ڈی ایس پی سمیت 3 افراد زخمی ہوگئے۔ ایف سی اور باجوڑ پولیس نے موقع پر پہنچ کر حالات کو کنٹرول کیا اور زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا,پولیس نے 6 افراد کو گرفتار کر لیا۔

معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ

سیاسی عدم برداشت معاشی ترقی کے لئے ایک بڑی رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ معاشرتی بدامنی کی حالت میں کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں، غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی آتی ہے، اور لوگ خوف و ہراس کی وجہ سے اپنی روزمرہ کی زندگی میں ترقی نہیں کر پاتے۔ اقتصادی بدحالی، بیروزگاری، اور فنی مہارتوں کی کمی جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں جو ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بن جاتے ہیں، نومبر میں پاکستان تحریک انصاف کی احتجاج کی موقع پر وزیر خزانہ محمد اورنگزیب  کے مطابق اپوزیشن کی احتجاج کی کال سے معاشی طور پر  روزانہ 190 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوتا ہے، لاک ڈاؤن اور احتجاج کی وجہ سے ٹیکس وصولیوں میں کمی ہوتی ہے،  احتجاج کے باعث کاروبار میں رکاوٹ سے برآمدات متاثر ہوتی ہیں، امن عامہ برقرار رکھنے کے لیے سیکیورٹی پر اضافی اخراجات آتے ہیں

انسانی حقوق کی پامالی

سیاسی عدم برداشت جب تشدد اور انتہا پسندی کی صورت اختیار کر لیتی ہے، تو اس سے انسانوں کے بنیادی حقوق بھی متاثر ہوتے ہیں۔ جب مختلف سیاسی گروہ اپنے مفادات کے لئے تشدد کا سہارا لیتے ہیں، تو معصوم شہری اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جیسے کہ جبری گمشدگیاں، تشدد، غیر قانونی حراست، اور آزادی اظہار رائے پر پابندیاں بڑھ جاتی ہیں۔

مذہبی و ثقافتی رواداری میں کمی

سیاسی تشدد اور انتہا پسندی مذہبی اور ثقافتی رواداری کو بھی متاثر کرتی ہے۔ جب لوگ ایک دوسرے کے سیاسی عقائد کو برداشت کرنے کے بجائے ان پر حملہ آور ہونے لگتے ہیں، تو اس کا اثر مذہبی اور ثقافتی گروپوں پر بھی پڑتا ہے۔ اس کے نتیجے میں فرقہ واریت، نسلی تفریق اور مذہبی منافرت میں اضافہ ہوتا ہے، جس سے پورے معاشرے میں کشیدگی اور بے چینی  پیدا ہوتی ہے، جیسا کہ ضلع مردان کے علاقہ ساولڈھیر میں چھ مئی 2023 کو پاکستان تحریک انصاف کے ایک احتجاجی مظاہرہ میں اختتامی دعا کے وقت مقامی عالم دین حافظ نگار عالم کے منہ سے کچھ الفاظ ادا ہوئے جس پر ان کو مبینہ طور پر گستاخ رسول ٹھہرایا گیا اور مشتعل ہجوم نے سٹیج سے اتار کر تشدد کرکے ساولڈھیر بازار میں بے دردی سے قتل کردیا تھا

سیاسی عدم برداشت جب تشدد اور انتہا پسندی کی شکل اختیار کر لیتی ہے، تو اس کے معاشرتی اثرات نہایت سنگین اور دور رس ہوتے ہیں۔ اس سے نہ صرف معاشرتی ہم آہنگی متاثر ہوتی ہے بلکہ جمہوری اقدار، معاشی ترقی، انسانی حقوق اور ثقافتی رواداری بھی داؤ پر لگ جاتی ہیں۔ اس کے تدارک کے لئے ضروری ہے کہ حکومت، سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی ایک مشترکہ کوشش کریں تاکہ سیاسی اختلافات کو پرامن طریقوں سے حل کیا جا سکے اور معاشرتی امن قائم رکھا جا سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button