علم و عمل کا پیکر مولانا داؤد شاہ حیدری

ہر معاشرہ علم، اخلاق، کردار اور دینی شعور کی بنیاد پر استوار ہوتا ہے۔ ان ستونوں کو مضبوط رکھنے کے لیے ہمیشہ کچھ شخصیات ہمہ وقت مصروفِ عمل رہتی ہیں۔ انہی ہستیوں میں ایک نمایاں اور معتبر نام مولانا داؤد شاہ حیدری کا ہے، جو اپنی علمی، تدریسی، سماجی اور روحانی خدمات کے باعث نہ صرف اپنے علاقے بلکہ پورے خطے کے لیے باعثِ فخر شخصیت ہیں۔
مولانا داؤد شاہ حیدری کا تعلق ضلع باجوڑ کے علم و ادب سے مالا مال گاؤں رحمان آباد سے ہے۔ وہ ایک کہنہ مشق عالم دین، محبوب معلم، مخلص مدرس، بااثر امام، بامعنی خطیب اور فعال سماجی کارکن کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان کی زندگی کا ہر لمحہ علم کے فروغ، اخلاقی تربیت، دینی خدمت اور معاشرتی اصلاح میں گزرتا ہے۔
نو برس سے مولانا شاہ صاحب دینی و عصری تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ وہ اس وقت دی رائز ایجوکیشن اکیڈمی عنایت کلے میں اردو اور عربی جیسے دقیق اور اہم مضامین کی تدریس کر رہے ہیں۔ ان دونوں زبانوں پر ان کا گہرا عبور طلبہ میں ان کو بے حد مقبول بناتا ہے۔ ان کا تدریسی انداز نہایت واضح، سادہ، مدلل اور طلبہ کی ذہنی سطح کے مطابق ہوتا ہے، جس سے طلبہ کو گہری فہمی حاصل ہوتی ہے۔
ان کی تعلیمی خدمات صرف نصاب تک محدود نہیں، بلکہ وہ طلبہ کی اخلاقی تربیت پر بھی خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ وہ اپنے طلبہ کو سچائی، دیانتداری، ادب، شائستگی، اتحاد، اور انسانیت کا درس دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تربیت یافتہ نسل نہ صرف تعلیمی میدان میں نمایاں ہوتی ہے بلکہ عملی زندگی میں بھی بااخلاق اور باشعور نظر آتی ہے۔
دن کے وقت اکیڈمی میں تدریس کے بعد مولانا داؤد شاہ حیدری نے ایک دینی مدرسہ کی بنیاد رکھی ہے، جہاں وہ قرآن، حدیث، فقہ، عقائد اور دیگر اسلامی علوم کی تدریس کرتے ہیں۔ ان کا اندازِ تدریس روایتی خشک علمیت سے ہٹ کر محبت، فہم، دلائل اور جذبے سے بھرپور ہوتا ہے۔ ان کی کلاسز میں طالب علم صرف کتابیں نہیں پڑھتے بلکہ علم کو سمجھتے اور اس پر عمل کرنے کا شعور بھی حاصل کرتے ہیں۔
مولاناداؤد شاہ حیدری صاحب کی شخصیت کا ایک اور روشن پہلو ان کی سماجی خدمت ہے۔ وہ نہ صرف علم کے میدان کے شہسوار ہیں بلکہ ایک متحرک سماجی کارکن بھی ہیں۔ علاقے کے فلاحی کاموں، غربا کی مدد، اجتماعی شعور کی بیداری اور نوجوانوں کی تربیت میں ان کا کردار مثالی ہے۔ وہ ہمیشہ اپنے علاقے کے مسائل کے حل، اصلاحِ احوال اور اجتماعی ترقی کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔
ان کے حسنِ کردار کا یہ عالم ہے کہ علاقے کے بزرگ حضرات نہ صرف ان کی عزت کرتے ہیں بلکہ اپنے بچوں کو بھی تلقین کرتے ہیں کہ مولانا داؤد شاہ حیدری کا احترام کریں، ان سے سیکھیں اور ان کی رہنمائی کو اختیار کریں۔ وہ ایک مشفق بزرگ، بے باک مقرر، نڈر عالم اور سچے انسان کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان کی حق گوئی اور صاف گوئی ان کی شخصیت کو اور بھی نکھارتی ہے۔
دی رائز ایجوکیشن اکیڈمی عنایت کلے میں مولانا شاہ صاحب نے تعلیمی معیار کے ساتھ ساتھ تربیت کا ایسا نظام قائم کیا ہے جو دیگر اداروں کے لیے نمونہ ہے۔ یہاں طلبہ نہ صرف نصاب مکمل کرتے ہیں بلکہ شخصیت سازی کے عمل سے بھی گزرتے ہیں۔ وہ بچوں کو صرف اچھا طالب علم نہیں، بلکہ اچھا انسان بنانے پر یقین رکھتے ہیں۔مولانا داؤدشاہ حیدری ایک محنتی مدرس اور ٹیچر ہے محنت پر یقین رکھتے ہیں اور وقت کی پاپندی کامیابی کی کنجی سمجھتے ہیں ۔۔
ان کے مدرسہ میں بھی یہی مزاج کارفرما ہے۔ جہاں روحانی تعلیم، ادب، احترامِ والدین، وقت کی قدر، اور معاشرتی ذمہ داریوں کی عملی تربیت دی جاتی ہے۔ وہ علم کو محض ڈگری یا روزگار کا ذریعہ نہیں، بلکہ انسان کی شخصیت کی اصل روح سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے شاگرد ہر میدان میں کامیاب اور باکردار ثابت ہوتے ہیں۔
ان کا علم، فہم، اور دینی بصیرت ہر طبقے کے لیے یکساں مفید ہے۔ وہ مسجد کے منبر سے بھی اصلاحِ امت کا پیغام دیتے ہیں اور اکیڈمی میں جدید علوم سے آراستہ نسل تیار کرنے میں بھی پیش پیش ہیں۔ ان کی جامع شخصیت میں دینی علما، سماجی رہنما، استاد، اور مصلح کا امتزاج پایا جاتا ہے۔
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مولانا داؤد شاہ حیدری جیسے افراد کسی بھی معاشرے کے لیے عظیم سرمایہ ہوتے ہیں۔ ان کی خدمات، قربانیاں، اور کردار نئی نسل کے لیے ایک مشعلِ راہ ہے۔ علم، کردار، اخلاق اور اخلاص کا یہ امتزاج ہمارے معاشرے کو درپیش بہت سے مسائل کا حل فراہم کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مولانا داؤد شاہ حیدری کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے، ان کے علم میں برکت دے، ان کے شاگردوں کو ان کا حقیقی وارث بنائے اور ان کی زندگی کو خدمتِ خلق و دین میں مزید کامیابیوں سے ہمکنار کرے۔ آمین۔