سیاسی جماعتوں کے لاعلم کارکن

تحریر فیروز خان آفریدی
ہمارے قریبی دوست محمد رئیس درد صاحب جو اجکل لاہور میں اپنا کاروبار کرتے ہیں۔ موصوف بہت اچھے شاعر اور ادیب ہیں اس کے علاوہ صوم و صلوات کے پابند اور دین کی احیا کی کوششوں میں مسلسل لگے رہتے ییں ۔سیاست سے میری ہی طرح درد صاحب کا بھی نظریاتی رشتہ ہے حالانکہ نہ وہ کسی جماعت کے کارکن ہیں اور نہ میں گذشتہ پندرہ سالوں سے کسی بھی سیاسی جماعت کا باقاعدہ منسلک ہوں۔
جو کوئی اچھا کام کریں ہم دونوں اس کی تعریف اور دفاع کرتے رہے ہیں اور جو کوئی دینی یا قومی معاملے کو پس پشت ڈال کر اپنی ذاتی مفادات کے کوئی حرکت کریں وہاں ہم دونوں تنقید کرتے ہیں ۔
میں کسی اچھائی کہ توقع میں عمران خان کا جس پر کم از کم کرپشن کا ابھی تک کوئی الزام ثابت نہیں ہوا حمایتی رہا ہوں اور وہ بھی میری طرح عمران خان سے توقع لگائے بیٹھے تھے ۔
اس کے علاوہ انکے سگے ماموں تحریک انصاف کے ممبر ہیں ۔
درد صاحب کچھ عرصے سے مولانا کے زبردست حمایتی بن گئے ہیں اور اپنے پوسٹوں میں دوسرے برے لوگوں کو چھوڑ کر صرف عمران خان کی کردار کشی کرتے ہیں
مجھے انکی اس رویے پر تعجب ہوا۔ لیکن کچھ زیادہ نہ کہہ سکا کہ ایک تو ھم دونوں کی بیچ بے حد احترام ہے دوسری بات یہ کہ وہ میری بہت عزت کرتے ہیں لہذا مجھے اج تک کسی بھی تنقیدی رویے کا جواب تک نہیں دیا ۔ لیکن مجھے حیرانگی ضروری ہوئی ہے کہ ایسا کیوں ہوا۔
اج دردد صاحب نے آج اپنے وال پر ایک پوسٹ کے ذریعے مولانا سے ایک سوال پوچھا ہے کہ "مولانا صاحب سے ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ جیسا کہ چند حلقوں کا یہ دعوی ہے کہ پاکستان نے خوست ولایت میں بے گناہ اٸی ڈی پیز پر حملہ کیا ہے ۔یہ کیوں ہوا اور اپ نے اس کے لٸے کیا اقدامات کٸےہیں ؟
کیا پشتون قوم دوبارہ اس جنگ کا شکار رہیگا۔”
درد صاحب کے سوال پر مجھے مجھے ایک قیصہ یاد ارہا ہے جو کچھ یوں ہے۔غالبا 90 کے اوائیل میں جب بے نظیر مرحومہ کی حکومت غالبا دوسری مرتبہ آئی اور محترمہ وزیر اعظم پاکستان منتخب ہوئی تھی ۔ مرحومہ کے خلاف مولانا نے فتوی صادر فرمایا تھا کہ عورت کی حکمرانی حرام ہے۔
لیکن بعد میں بے نظیر صاحبہ نے کسی طریقے سے اسے راضی کرکے اپنی حکومت میں شامل کیا ۔ اس قصے میں بلحاظ تاریخ یا پہلی یا دوسری حکومت کی غلطی ہوسکتی ہے احباب نشان دہی کرسکتے ہیں۔
ہمیں بھی اخباروں سے پتہ چلا کہ مولانا صاحب بے نظیر صاحبہ سے اتحاد کرکے انکی حکومت میں شامل ہوگئے ہیں۔ان دنوں خلیج میں اخبارات ایک دن کے وقفے سے ملتے تھے۔چند اخباروں نے لکھا کہ عورت کی حکمرانی کو حرام قرادینے والے مولانا عورت کی گود میں ڈھیر ہوگئے۔
بہت سارے جمیعت کے کارکن یہ بات ماننے کے لئے تیار نہیں تھے ۔ہم جیسے دائیں بازو کے لوگ بھی اس بات کو ھضم کرنے میں حیل و حجت کے شکار تھے۔
بعد میں مولانا جب قطر آئے تو انکے لئے ایک تقریب جو اس وقت کے جمیعتی تنظیم انصار اسلام کے صدر مولانا محمد ادریس اور جنرل سیکریٹری بابو خان عثمانی مرحوم نے ترتیب دی تھی۔ تو اس تقریب میں ھم سب دوستوں کو حسب معمول بلایا گیا تھا ۔مولانا نے تقریر فرمائی کہ کس طرح وہ موجودہ حکومت میں شامل ہوئے۔ خود جمیعت کے لوگوں کو تحفظات تھے۔
بعد میں کئی لوگوں نے حتی کہ انکی جمیعت کے پرانے ساتھیوں نے اپنے تحفظات ظاہر کئے ۔ اور سوالات پوچھے ۔کہ مولانا صاحب ایسی کونسی مجبوری تھی کہ یہ سب کچھ آپ نے کیا ہے؟ اس سے ہمیں بے حد صدمہ ہوا ہے۔جس کا جواب دہتے ہوئے مولانا نے مختاط انداز میں کہا ۔
کہ اپ سب کو معلوم ہے کہ پاکستان میں انگریز کے بعد انگریزوں کا پالا ہوا طبقہ حکمران آتا رہا یے۔ ان لوگوں کو جو مجاھدین ازادی یا انگریز مخالف لوگ تھے انہیں ایوانوں اور آئینی اداروں میں کام کرنے نہیں دیا جارہا ہے اور ابھی تک اسے دور رکھا جارہا ہے جنہوں نے یہ ملک پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کے نام پر بنایا تھا ۔
کیونکہ انگریزوں کو جاتے جاتے یہ ڈر تھا کہ یہاں اگر یہ لوگ برسراقتدار آگئے تو ہمارے بنائے ہوئے نظام کو بھی ختم کردیں گے ۔اور ہمارے وفادار لوگوں کو بے دخل کردیں گے۔
اور وہ چاہتے تھے کہ یہ ممالک جو کسی نہ کسی طرح ہمارے مختاج رہیں تاکہ ان سے فوائد حاصل کرتے رہیں ۔اگر ہمارے اختیار سے یہ لوگ نکل جائیں گے۔ تو ہمارے خلاف ساری دنیا میں نفرت پھیلائیں گے ۔
اس خوف سے کہ کہیں خدا نخواستہ جس دین کے نام پر یہ ملک بنا تھا کہیں اس دین کا کوئی صفایا نہ کریں اس لئے ہم نے یہ بہتر جانا کہ کسی ذریعے سے ایوان میں اپنی موجودگی کو لاکر دینی طبقے کو طاقت دیں تاکہ دین کے لئے بننے والے خطرات سے بروقت نمٹ سکیں ۔
پاکستان کے لوگ تو مولوی کو مانتا ہے لیکن ووٹ دیکر اسے ایوان میں نہیں پہنچاتا۔ہم دین کی احیا اور اسلامی شعائیر کی زوال پذیری اور غیر دینی نظام کو لاگو ہونے کی خطرے کو بھانپتے ہوئے حکومت میں اپنے خاص شرائط کے ساتھ شامل ہوگئے ہیں کہ کہیں خدانخواستہ دینی اور اسلامی تعلیمات پر مبنی آئینی نکات کو ائین سے نہ نکال لیں۔
دوسرے لفظوں یہ بیانیہ بتایا کیونکہ ہمیں خطرہ محسوس ہوا تھا کہ کہیں ائین پاکستان سے اسلام سے متعلق دفعات نہ نکال دیں اس لئے ہم شامل ہوئے ہیں ۔لوگوں نے کہا کہ اپ مزاحمت کرتے جس پر مولانا نے فرمایا کہ یہاں مغربی جموریت نافظ یے اور جمہوریت کی رو سے برسر اقتدار حکومت جو بھی ترمیمات چاھےتو ایوان کی سادہ اکثریت سے کرسکتے ہیں۔
اس لئے ہم نے بہتر سمجھا کہ حکومت میں شامل ہوکر ان جیسے اقدامات کا بروقت دفاع کیا جائے۔اس پر بہت سارے جمیعتی و غیر جمیعتی سیکولر پارٹی کے مخالف لوگ مطمئین نہ ہوئے لیکن کیا کرسکتے تھے۔
مولانا کی قطر آمد سے پہلے ہم نے ہمارے پشتو ادبی ٹولنہ کے جنرل سیکریٹری مشہور نعت خواں اور نظم گو مترنم شاعر احسان اللہ فاروقی جو جمیعت کے اندر مولانا اور دوسرے اکابرین سے خاص لگاو رکھتے تھے اور جب پاکستان میں تھے تو مولانا کو پاکستان میں نظمیں سناتے تھے اس کے علاوہ مولانا کی چاپی مساج وغیرہ بھی بہت شوق سے کرتے تھے ،جو کہ عموما عوام کا علما کے ساتھ ایک محبت کا اظہار ہوتا یے۔
جیسا کہ مولانا طارق جمیل صاحب یا دیگر علمائے کرام کے شاگرد اپنے اساتذہ کی چاپی اور مساج کرتے رہتے ہیں اور یہ شائید یہ کوئی عیب کی بات بھی نہیں ۔
جب ہم نے ان سے بتایا کہ فاروقی صاحب جس مولانا کے لئے اپ لڑائی مارکٹائی تک پر اجاتے ہیں اپکو پتہ کہ مولانا تو بے نظیر صاحبہ کے گود میں بیٹھ گئے ہیں ۔
آپ کیا کہیں گے ؟
میرے اور دوستوں کے سامنے فاروقی نے قسم کھایا کہ ایسا کبھی ہو نہیں سکتا اور حتی کہا کہ یہ آپ جیسے دین بیزار لوگوں کا یہ منفی پروپیگنڈا ہے ۔جب انہیں کہا کہ نہیں بھائی صاحب ہم نے اخبارات میں اس خبر کو پڑھا یے۔
کہنے لگا کہ میں مولانا کوا پ سب سے بہتر جانتا ہوں وہ شیخ القرآن حضرت مولانا مفتی محمود کا فرزند ارجمند یے کوئی چوڑا نہیں ۔ دنیا الٹ پلٹ ہوجائیگی لیکن مولانا یہ کام کبھی نہیں کریں گے۔
ایک دوست نے جلدی سے اپنے گاڑی سے اخبار نکال کر اسکے سامنے رکھا اور اس کے سامنے پڑھا تو یہ فورا آٹھ گیا طاق سے قرآن اٹھایا اور اس پر ھاتھ رکھ کر کہا کہ یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔
جب اسے سب نے کہا کہ ایسا ہوا ہے تو قسم اٹھانے کے بعد اپنی بیوی تک کو طلاق ڈالا ۔ کہ میرے اوپر میری بیوی ایسی ہوجائے اگر اس بات میں سچائی ہو۔
اس غیر متوقع حرکت سے ھم سب چپ ہوئے ظاھر آندھی عقیدت میں وہ اس حد تک جاسکتا ہے یہ کبھی سوچا ہی نہیں تھا
ہمیں چپ پاکر اپنی فرشی نشت سے اٹھا اوپر فون کے بنائے دیوار پر جڑے پاکٹ نما تختی سے اپنا لین لائین فون گود میں رکھ کر مولانا کا لین لائین نمبر ملایا ۔ خوش قسمتی سے مولانا فون پر ہی ملے ۔
سلام دعا کے بعد حال احوال پوچھا اور نہایت ادب سے یہی سوال پوچھا جس پر اس نے طلاق دے ڈالا تھا۔اور آخر میں یہاں تک کہا کہ میں نے ان لوگوں کو کہا ہے کہ میں اپنے قائید کو جانتا ہوں ۔حتی قسموں اور طلاق کا ذکر بھی کردیا ۔
مولانا نے جب یہ گفتگو سنی تو تھوڑی دیر خاموشی کے بعد ان سے گویا یوا۔کہ جماعت کے اکابرین اور کارکن نے مجھے فیصلے کا ختیار دیا ہے کیونکہ میں ہی باھمی اتفاق سے جمیعت کا سیکریٹری جنرل ہوں ۔
فیصلے کا اختیار میرے پاس ہیم اور طلاقیں آپ لوگ ڈال رہے ہیں عجیب قسم کے لوگ ہیں اپ سب۔خیر مولانا نے اسے بتایا کہ لوگوں کی غلط فہمی دور کرنے میں عنقریب دورے کررہا ہوں جس میں قطر کا دورہ بھی شامل ہے ۔میں بتاونگا کہ کس خطرے کی وجہ سے میں نے یہ فیصلہ کیا یے ۔ اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی ۔
تو یہ بات عرض کرونگا کہ محمد رئیس درد بھائی نے ابھی تک سیاسی مولیوں کو پہچانا نہیں انکی اصلیت نہیں جانتا وہ صرف یہ جانتا ہے کہ دیوبند مکتب جس سے ہم سب کا تعلق ہے کا ایک نمائندہ جماعت کا سربراہ یے اور اس کی پیروی کرنا ہم سب پر واجب ہے اس لئے وہ انکی سیاسی نظریے کی بھی حمایت کرتا یے۔ اور بھر پور کرتا ہے۔
حالانکہ اسے پتہ ہونا چاھئے کہ پاکستان کے اندر جتنی بھی سیاسی دینی اور مسلکی جماعتیں ہیں یہ سب اسٹیبلیڈمنٹ کے بنائے ہوئی جماعتیں ہیں جو ایک دوسرے کے لئے بطور پریشر گروپ استعمال میں لائے جاتے ہیں
جس طرح ہندوستان میں کانگریس کے خلاف انگریز نے مسلم لیگ ہندوستان کے جاگیرداروں ، نوابوں اور آزاد پسند قسم کے لبرل پڑھے لکھے مسلمانوں اغاخانیوں اور حتی کہ قادیانیوں کو جمع کرکے بنایا تھا کیونکہ کانگریس روز بروز طاقتور جماعت بن رہی تھی اور انگریز کی حکومت کے لئے یہ طاقت اور بیداری بھیانک خطرہ تھی۔ جس کی طاقت کو توڑنے اور سیاسی توازن کو برقرار رکھنے کے لئے ایک دوسری جماعت کا بنانا ضروری تھا
اسی طرح جماعت ، جمعیت ،سپاہ صحابہ ، تحریک نفاذ جعفریہ اور حالیہ لبیک اور دیگر گروپوں کو منظم کرنے میں حتی کہ تحریک انصاف کو بھی ایک تیسری قوت بنانے میں اسٹیبلشمنٹ کا بہت بڑا ہاتھ ہے ۔
مولانا جتنا بھی بڑکیں مارے اگر حکم نہ مانیں تو انجام اسکا نواز پچھلی حکومتوں کی طرح ہوگا۔لہذا یہ بات دل سے نکالو کہ مولانا اسٹیبلیشمنٹ کو ناراض کرکے کوئی جلوس نکالے گا۔
اگر یہی مولانا فانا میں دھشت گردی کے زمانے میں ایک دن کا دھرنا باڑہ میران شاہ باجوڑ یا اورکزئ ایجنسیوں میں دیتے تو دھشگرد اتنے طاقتور نہ ہوتے لیکن دھشت گرد تنظیمیں بھی آقا کے بنائی ہوئی تھی اور دینی جماعت بھی انکی زیر سرپرستی چلتی ہیں اور چلتی رہے گی۔