باجوڑ،کنڑ: وسطی ایشیاء تک تاریخی تجارتی راستہ ناواپاس کو فی الفور دو طرفہ تجارت کیلئے کھول دیا جائے۔ شیخ جہانزادہ

باجوڑ اور کنڑ کے درمیان وسطی ایشیاء تک تاریخی تجارتی راستے ناو پاس کو فی الفور دو طرفہ تجارتی سرگرمیوں سمیت عام آمد و رفت کیلئے کھول دیا جائے۔
ان خیالات کا اظہار عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما شیخ جہانزادہ نے اخباری بیان جاری کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ راستہ با جوڑ مومند سمیت پورے ملاکنڈ ڈویژن کے لاکھوں لوگوں کیلئے روز گار کا وسیلہ بنے گا۔ ناواپاس جیسے اہم شاہراہ کو باقاعدہ طور پر پاکستان افغانستان کے ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ کا حصہ بنایا جائے جس سے باجوڑ سمیت ملاکنڈ کے لاکھوں لوگ بر سر روز گار ہونگے ۔ افغانستان اور پختو نخوا کے نئے اضلاع میں ڈیورنڈ لائن پر آباد پشتونوں کے درمیان 335 راستوں پر وسطی ایشیا تک صدیوں سے آزادانہ تجارت و عام آمد و رفت ہوتی تھی۔ ان سینکڑوں راستوں میں سے سولہ بڑے راستے ہیں جنکوں ماضی تجارت و عام آمد و رفت کیلئے استعمال کیا جاتا تھا ان سولہ بڑے تجارتی راستوں میں باجوڑ میں، ناوا پاس، کا راستہ بھی شامل ہے جو افغانستان کے کنڑ صوبے سے متصل واقع ہے۔ اس تاریخی راستے سے 326 قبل از مسیح میں سکندر یونانی ، محمود غزنوی ، چنگیز خان، اور ظہیر الدین بابر جیسے بڑے بڑے فاتحین بھی داخل ہوئے تھے جبکہ 1914 میں باچاخان نے یہاں پر واقع آزادی کے عظیم مجاھد مولانا نجم الدین اور المعروف اڈے صاحب کے مرکز و تاریخی مسجد کا دورہ بھی کیا تھا۔ ناواپاس کی طرف پاکستان اور افغانستان میں دونوں طرف سڑک پختہ ہے ناواپاس افغانستان کے صوبہ کنڑ کے ساتھ ملحق ہے جبکہ صوبہ نورستان نگرہار جلال آباد کی طرف یہاں سے ڈھائی گھنٹوں میں پہنچا جاسکتا ہے ضلع باجوڑ تحصیل ناواگی ناواپاس کا یہ تجارتی پوائنٹ ضلع مومند کے قریب ہونے کیساتھ باجوڑ سمیت پورے ملاکنڈ ڈویژن کے تجارت پیشہ لوگوں کے تجارت کا راستہ بھی تھا جبکہ ناواپاس پشاور سے دو گھنٹے کے مسافت پر طورخم کی طرح پورے پختونخوا کیلئے افغانستان آنے جانے کیلئے قریب ترین راستہ بھی ہے ۔ باجوڑ میں افغانستان کے ساتھ 26 چھوٹے بڑے راستے تھے مگر بدامنی کے نام پر اور چند سالوں سے ڈیورنڈ لائن پر باڑ لگانے سے یہ تمام راستے مکمل طور پر بند ہو گئے ہیں ۔ دیگر تجارتی راستوں کی طرح ناواپاس کے راستے سے بدامنی کے نام پر پچھلے بیس سال سے تجارت اور ہر قسم کی آمد و رفت پر بھی پابندی لگائی گئی ہے۔ اس راستے کی بندش سے پاکستان اور افغانستان کی سائیڈ پر لاکھوں بے روزگار ہوگئے ہیں جبکہ ڈیورنڈ لائن کے آر پار ایک ہی قوم کا ایک دوسرے کے ساتھ خاندانی اور معاشرتی رشتہ ختم ہو گیا ہے ہزاروں سال سے آباد ان لاکھوں پشتونوں کے درمیان غمی وخوشی ختم ہوگی ہیں جو ایک انسانی المیہ ہے ۔ اس راستے کو ہم فی الفور تجارتی سرگرمیوں کے ساتھ عام آمد ورفت کیلئے طورخم، چمن، انگور اڈہ غلام خان، اور خرلاچی کی طرح کھولنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ موجودہ صوبائی حکومت وفاقی حکومت کے ذریعے پختو نخوا کے نئے اضلاع کے مسائل کے حل کے حوالے سے ان بند راستوں کیلئے اقدامات اٹھائیں ۔ یہ علاقے دھشت گردی کے نام پر حالیہ وقت میں مکمل تباہ ہوئے ہیں یہاں پر کاروباری سرگرمیاں ختم ہونے کے قریب میں یہاں کے لوگ روز گار کیلئے ملک کے دیگر شہروں کا رخ کر رہے ہیں جس سے بڑے پیمانے پر ان علاقوں سے لوگوں کا انخلاء ہورہا ہیں۔ لہذا ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ افغانستان کے ساتھ تمام بند تجارتی راستوں کو کھول کر یہاں کے لوگوں کو بہت آسانی کے ساتھ اپنی گھر کی دھلیز پر روز گار کاوسیلہ دیا جا سکتا ہے۔ ڈیورنڈ لائن کے دونوں جانب ایک ہی قبیلے کے پختون آباد میں لھذا ان راستوں کو مزیدا اگر بند رکھا جاتا ہے تو یہ ان پختونوں کے معاشی قتل عام کے مترادف ہے۔ اگر ناواپاس کا راستہ کھول دیا جاتا ہے تو اس سے افغانستان پاکستان کے درمیان نفرتوں میں کمی آئیگی اور پیپل ٹو پیپل کنٹیکٹ بھی بڑھے گا موجودہ دنیا تجارت کی دنیا ہے اس میں اپنے راستے بند کرنا ریاست کے اقتصادی بدحالی پر منتج ہو رہی ہے