کالم /بلاگ

تذکرہ علمائے باجوڑ:مولانا محمد شعیب ولایتی باجوڑی رحمہ اللہ

آٹھویں  قسط

جامع المعقولات حضر ت مولانا محمد شعیب ولایتی باجوڑی رحمہ اللہ

  (تلمیذ خاص مولانا عبدالحئی لکھنوی رحمہ اللہ)

ایک مشہور فنی عالم کے ساتھ ایک دفعہ پختون علماء کے تصانیف کے حوالے سے گفتگو ہو رہی تھی، انہوں نے فرمایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پختون علماء نے دینی تصانیف میں کمال کے کتابیں تصنیف کی ہے۔ لیکن پنجاب کے اہل علم حضرات پختون علماء کے صرف چند گنے چُنے کتابوں کی افادیت اور جامعیت تسلیم کرتے ہیں ان میں سے ایک تحریر سنبٹ ہے، لیکن اس تحریر سنبٹ سے زیادہ پذیرائی اور مقبولیت اس پر موجود حاشیہ تحفہ خادمیہ کو ملی، جو ایک جامع اور بہتر انداز کی تحریر ہے۔ اسی تحفہ خادمیہ کے مصنف کے زندگی کے احوال پیش خدمت ہے۔

آپ 1230ھج (بمطابق 1815ء) کو مولانا عزیز اللہ صاحب کے گھر موضع بڈالئی واڑہ ماموند باجوڑ ایجنسی میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق ماموند کے اُریازی قبیلے کے ذیلی شاخ خاتون خیل سے تھا۔آپ کی والدہ محترمہ بھی ایک نیک، زاہدہ اور عابدہ خاتون تھی۔ایک عجیب اور حیران کن امر یہ تھا کہ پیدا ہونے کے ساتھ ہی قدرتی طور پر پہلے ہی سے آپ کے دانت نکل آئے تھے۔چونکہ آپ کی پیدائش ایک علمی گھرانے میں ہوئی اس لیے بچپن ہی سے دینی علوم کے حصول کے طرف میلان تھا۔ کم عمر ی ہی میں گھر پر ناظرہ قرآن پڑھ لیا تھا، ابھی چھوٹے ہی تھے کہ اس دوران ایک عجیب واقعہ رونما ہوا۔ہوا کچھ یوں کہ عید الفطر قریب تھی اس دوران ایک ٹوپی بیچنے والا گاؤں آیا، آپ نے بھی اپنے دادا سے دیگر بچوں کی طرح عید کے لیے ٹوپی خریدنے کی پیشکش کی۔دادا نے بطور طنز کہا کہ بیٹا تمہارا سر اب تک ٹوپی رکھنے کے لائق نہیں۔ تب اس چھوٹے سے بچے نے اس بات کو دل پر لے لیا اور کچھ دنوں بعد گھر سے علم کے حصول کے لیے نکل پڑے۔ پھر جب دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد گھر آئے تب ایک پورا قافلہ ان کے ہمراہ آیا تھا تب انہوں نے دادا محترم سے کہا کہ اب میرا سر ٹوپی کے قابل ہوا یا نہیں، دادا نے فرمایا ہاں بیٹا اب تمہارا سر ٹوپی نہیں بلکہ دستار کے لائق ہوچکا ہے۔

آپ کے والد محترم خود بھی ایک جید عالم دین تھے آپ نے بچپن ہی میں اپنے والد محترم سے حفظ قرآن او ر ابتدائی درجات کی اکثر کُتب پڑھ لی تھی۔کافیہ وغیرہ دیگر فنون کے حصول کے لیے سوات کے علاقہ سنبٹ چلے گئے جہاں علوم آلیہ کے مشہور عالم دین حضرت مولانا عبدالغفور ؒ (مصنف تحریر سنبٹ)کا تلمذ اختیار کیا۔اسباق کے تکمیل پر آپ واپس اپنے گاؤں آگئے اورتحریر سنبٹ پر بہترین حاشیہ لکھ ڈالا، جو کہ تحفہ خادمیہ کے نام سے مشہور ہے۔جلد ہی اصل کتاب سے زیادہ مذکورہ حاشیہ علمی حلقوں میں مقبول ہونے لگی، جب ان کے استاد (صاحب کتاب) کو علم ہوا، تو وہ ناراض ہوگئے، مولانا محمد شعیب اس دوران دارالعلوم دیوبند چلے گئے تھے، وہاں ا ن کو اپنے استادکی ناراضگی کا پتہ چلا تو چھٹی لے کر فوراً اپنے وطن واپس آئے اور استاد کے خدمت میں حاضر ہوئے، استاد سے معافی مانگی انہیں منایا اور عرض کیا کہ حضرت یہ تو کوئی الگ کتاب نہیں بلکہ آپ سے اسباق کے دوران جو علمی نکات سنے تھے انہیں میں قلمبند کیاہے، تب استاد نہایت خوش ہوئے خوب دعائیں دے کر رخصت کیا۔

اس کے بعد آپ دوبارہ علوم کے تکمیل کے غرض سے ہندوستان چلے گئے اور مشہور علمی درسگاہ دارالعلوم دیوبند میں مولانا عبدالحئی لکھنوی ؒ کے حلقہ درس میں شامل ہوگئے۔ مولانا موصوف سمیت چند دیگر جبال العلم اساتذہ سے آپ نے کامل فیض حاصل کیا، اور خاص طالب العلم کے حیثیت سے دستار فضیلت حاصل کی۔ آپ کو دلائل الخیرات اور قصیدہ بُردہ میں اجازت بھی عنایت کی گئی۔مہارت تامہ کے حصول کے بعد اپنے آبائی گاؤں بڈالئی (باجوڑ) تشریف لے آئے جہاں ان کا زبردست استقبال ہوا۔

آپ باجوڑ ایجنسی میں دارالعلوم دیوبند کے اولین فارغ التحصیل، فاضل شخصیت اور دارالعلوم دیوبند کے نظریات کے پکے معتقد، علمی اور روحانی شخصیت تھے۔ احباب اور رشتہ داروں کے خواہش پر آپ بڈالئی گاؤں سے موضع لوئی خرکی (ماموند) منتقل ہوگئے۔آپ کے ساتھ ہی بڈالئی گاؤں میں قاضی غانٹول صاحب کا قائم کردہ مدرسہ بھی لوئی خرکی گاؤں منتقل ہوگیا۔ یہاں سے آپ نے اپنی علمی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔دور دراز کے علاقوں سے طلباء سے علمی تشنگی دور کرنے جوق در جوق آتے اور علمی موتی سمیٹتے۔آپ کی علمیت زمانہ طالب علمی سے بام عروج کو پہنچ چکی تھی۔

آپ نے معاشرے کے اصلاح کے حوالے سے بھی قابل ذکر اقدامات کیے تھے، اس کے لیے آپ نے علاقے میں منشیات کے روک تھام، قومی اور اندرون خانہ مسائل کے حل کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی تھی،  جس کے اولین صدر آپ منتخب ہوئے، جو اکثر مسائل صلح کے ذریعے نمٹادیا کرتے تھے۔ مذکورہ کمیٹی کو اس وقت کی افغان حکومت کی بھر پور حمایت و معاونت حاصل تھی۔ آپ کے اس اقدام سے عام لوگ آپ کے بہت زیادہ قریب آئے۔ عوامی مقبولیت اور شرعی امور میں آپ کی خاص وصف بن گئی۔

اپنے دور کے دو مشہور اولیائے کرام مولانا نجم الدین عُرف ہڈے مُلا او پیرمانکی صاحب کے ساتھ آپ کے قریبی روابط اور تعلقات تھے۔ان کے ہمراز ساتھیوں میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔ جب ان دو بزرگوں کے درمیان چند دینی مسائل پر اختلاف پیدا ہوگیا اور اختلاف شدت اختیار کرنے لگا تب آپ نے حکیم آمین الحق (ساکن گنڈھیری)، معروف شاہ صاحب ذادہ (ساکن میاں کلے) اور چند دیگر رُفقا کے ساتھ مل کر ایک علمی جرگہ تشکیل دیا جس کے نتیجے میں ہڈے ملا اور پیرمانکی صاحب کے درمیان اختلافات ختم ہوگئے۔

آپ نے انگریز کے خلاف جہاد میں بھی بھر پور حصہ لیا، آپ نے الیکنڈے، کڑپہ، ملاکنڈ اورلکڑے کے مقامات پر کئی معرکوں میں حصہ لیا،اس دوران آپ نے ایسے ناقابل فراموش جنگیں لڑی جنہیں تاریخ ہمیشہ یاد رکھی گی۔خاص کر ”ارناویئ“  (ماندل باجوڑ) کا مشہور زمانہ غزا جس میں انگریزوں کو عبرت ناک ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا اور آپ غازی بن کر لوٹے اس کارگردگی پر اس وقت کی افغان حکومت نے آپ کو بطور انعام ایک پستول، اور قومی پرچم بھی عنایت کیاتھا۔

آپ نے اپنی حیات میں یکے بعد دیگرے تین شادیاں کی تھیں۔ جن سے آپ کو اللہ تعالیٰ نے آپ کئی اولاد سے نوازا لیکن جب بچے کھیلنے کود نے کے عمر کو پہنچ جاتے  آپ اپنی اہلیہ سے فرماتے کہ یہ بچے آخرت کے لیے بہترین ذریعہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ تب اکثر اوقات بچے وفات پاجاتے، آپ کے صرف دو ہی بچے حد بلوغ کو پہنچ سکے، مولانا فضل الرحمٰن(المعروف بہ صاحب حق صاحب، فارغ التحصیل جید عالم دین تھے)  اور ظہور اللہ۔اپنے دور میں اوریازی قوم کے چیدہ اور معتبر مشران میں آپ کا شما ر ہوتا تھا۔

دین کی خدمت اور والد کے مشن کو آگے لے جانے میں آپ کے اولاد نے بھر پور کردار ادا کیا،آپ کے بڑے فرزند مولانا فضل الرحمٰن بھی تدریس و دریس کے ساتھ علاقائی امور میں پیش پیش رہے، علاقے سے رسوم اور ظلم کے روک تھام کے ختم کرنے کے لیے بھر پور کاوشیں کی۔پڑوسی ملک افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ اور سردار داؤد کے ساتھ بہترین تعلقات تھے۔ جب سرخ ریچھ روس افغانستان پر حملہ آو رہوا تب آپ کے فرزند اور پھر آپ کے پوتے الحاج ملک فضل معبود شہید نے جہاد افغانستان میں بھر پور حصہ لیا، اور ہر قسم کا جانی و مالی تعاون فراہم کیا۔

ناموافق حالات اور قومی و علاقائی مسائل کی کثرت نے آپ کو اگرچہ گوشہ تصنیف میں بیٹھنے کا موقع فراہم نہیں کیا۔ لیکن تحریر سنبٹ پر موجودآپ کا مشہور و مقبول حاشیہ دیکھ کر اہل علم حضرات آج بھی انگشت بہ دندان رہ جاتے ہیں اور آپکی تصنیفی اور تالیفی ملکہ کی تعریف ضرور کرتے ہیں۔ آپ کا ہزاروں کُتب پر مشتمل کتب خانہ آپ کے وفات کے بعد تاراج کردیا گیا، جس کے باعث ہمیں آپ کی تصنیفی خدمات کے طور پر تحفہ خادمیہ ہی مل سکا، آپ کی یاد گار کے طور پر آپ کے پڑپوتے ملک فضل ودود صاحب نے 2001ء میں آپ کے نام سے منسوب مدرسہ اسلامیہ شعیبیہ(کگہ پاس باجوڑ)  کا سنگ بنیاد رکھا، جو تاحال اپنی خدمات جاری و ساری رکھے ہوئے ہے۔

آپ کو عمر کے آخری حصے میں اس وقت کے افعانستان کے بادشاہ امیر عبدالرحمٰن کے طرف سے کابل آنے کی دعوت ملی، آپ اپنے ساتھی جناب حضرت شاہ پاچا صاحب کو ساتھ لے کر شاہی مہمان کے حیثیت کابل تشریف لے گئے، وہاں چند دنوں کے بعد دونوں ساتھی بیمار ہوگئے۔اسی حالت میں وطن واپس آئے اور یہی بیماری بڑھتی چلی گئی، افاقہ نہ ہوسکا اور بعد میں یہی بیماری آپ کی موت کا سبب بنی، بالآخر علم و عرفان کا یہ سمندر اس بیماری سے نبرد آزما نہ ہوسکا، اور 1307ھج (بمطابق 1890 ء) کو 75 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ اللہ ان کی قبر منور فرمائیں، اللہ ان کی اولاد خصوصاً ملک فضل معبود شہید (سابقہ کونسلر) اور ملک فضل ودود کے جد امجد کا جاری کردہ مشن اور ان کا قا ئم کردہ مدرسہ اسلامیہ شعیبیہ شاد و آباد رکھیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button