تذکرہ علمائے باجوڑ،نمونہ ء اسلاف حضرت مولانا محمد غلام داؤد صاحب رحمہ الله

تذکرہ علمائے باجوڑ،نمونہ ء اسلاف حضرت مولانا محمد غلام داؤد صاحب رحمہ الله
چوتھی قسط:
باجوڑ ایجنسی کے مشرق میں واقع سر سبز و شاداب علاقہ انعام خورو چینگئ ماموند جس کو ملکی و غیرملکی میڈیا میں خاصی شہرت ملی ہے اس کی وجہ سال 2006 میں یہاں قائم ایک دینی مدرسہ پر امریکی ڈرون طیاروں کی وحشیانہ بمباری تھی جس میں تقریبا 83 معصوم حُفاظ کرام اپنے معصوم جسموں کی قربانی دے کر رب کے حضور حاضری دے گئے، دوسری وجہ اسی علاقے ٹوپ انعام خورو چینگئ میں پیدا ہونے والے ایک جیّد عالم دین حضرت مولانا محمد غلام داؤد رحمہ اﷲ ہیں۔
1931 کو اسی زرخیز علاقے ٹوپ میں مولانا عجیب اﷲ ؒ کے گھر ایک بچہ پیدا ہوا ۔ والد نے ان کا نام محمد غلام داؤد رکھا چونکہ آپ کے والد ایک جید عالم دین تھے اس لئے اپنے بیٹے کو اس دولت سے نوازنے کا تہیہ کرلیا تھا۔ بچے کو گھر پر ناظرہ قرآن مکمل کرانے کے بعد دینی علوم کے ابتدائی کتب صرف و نحوکے حصول کے لئے ٹوپ ماندل کے مشہور عالم دین حضرت مولانا گل نور ؒ کے پاس بھیجا۔ ابتدائی کتب کے تکمیل کے بعد منطق اور دوسرے علوم کے حصول کے لئے چہارمنگ دوزخ شاہ(موجودہ جنت شاہ) کا رخت سفر باندھا جہاں حضرت مولانا قاضی امیر سید کے پاس طویل عرصہ گذار کر مذکورہ علوم میں خوب سیراب ہوئے۔ بقیہ فنون کے تکمیل کے بعد دورہ حدیث بھی داخلہ لے لیا اور 11 اپریل 1954 بمطابق ۱۳۷۳ ھ کو صحاح ستہ پڑھ کر درس نظامی کے علوم سے فراغت حاصل کی۔ دورہ حدیث میں آپ کے اساتذہ حضرت مولانا عبدالحلیم وڈیگرامی ؒ ، جامع المعقول مولانا خان بہادر ؒ ، حضرت مولانا محمد نذیر چکیسری ؒ تھے جبکہ سند حدیث پر والئی سوات عبدالحق جہان زیب کے اعزازی دستخط بھی موجود ہیں۔
سوات میں رہتے ہوئے آپ درس نظامی کے اسباق کے ساتھ ساتھ علم طب بھی سیکھتے رہے ابتداء میں آپ کے استاد بونیرکے ماہر حکیم شیر بہادر تھے پھر 1955 میں حکیم مسکین خطاب الدین نے آپ کو حکمت کی سند دے کر باقاعدہ اجازت عطاء کی۔
آپ کو احادیث مبارکہ سے بے انتہاء محبت تھی اس بناء پر آپ نے 1956 کو دوبارہ دورہ حدیث کیلئے مشہور محدث عالم حضرت مولانا نصیرالدین غورغشتوی ؒ کے پاس زانوائے تلمذ اختیار کیا ۔سال کے اختتام پر دورہ تفسیر کے لئے شیخ التفسیر حضرت مولانا شمس الھادی ؒ کے پاس شاہ منصور صوابی چلے گئے اور علوم قرآن میں خوب سیراب ہوئے۔
فراغت کے بعد آپ نے درس و تدریس جیسے عظیم شعبے وابستگی اختیار کی،اپنے علاقے کے مسجد میں مختلف علاقوں کے طلبہ کو پڑھانا شروع کیا ۔ کچھ عرصہ گذرنے کے بعد ڈمہ ڈولہ سلطان بیگ کے مقام پر مدرسہ دارالعلوم تعلیم القرآن کی بنیاد رکھی ۔ یہاں منتقل ہونے کے بعد اپنے علوم کے انوارات سے تادم آخر اس مدرسہ کی آبیاری کرتے رہے۔ چند تلامذہ کے اصرار پر آپ نے ہفتہ وار(جمعرات کے روز) دورہ حدیث کا اجراء فرمایا جو بڑے خوش اسلوبی کے ساتھ جاری رہا ، مولانا محمدایوب ؒ ، قاضی غلام رسول ، مولانا خلیفہ ؒ ، مولانا عبدالحق ؒ ، مولانامحمد شاہ جیسے جید علمائے کرام نے اسی ہفتہ وار دورہ حدیث میں تلمذ اختیار کیا اور صحاح ستہ کے تکمیل پر باقاعدہ سند حدیث حاصل کئے۔
1956 کوآپ نے پہلی مرتبہ شیخ القرآن مولانا محمدطاہر پنج پیری رحمہ اللہ کے دورہ تفسیر میں شرکت کی جس کے بعد ان کی تمام تر توجہ قرآن وسنت کے نشرواشاعت کے طرف مائل ہوگئی، اپنے استاد کے مشن کی مکمل ترویج شروع کردی۔ پنج پیر سے واپسی پر اپنے علاقے کے تمام ملکانان اور معتبر افراد کو جمع کرکے ان سے مطالبہ کیاکہ اس علاقے میں ہم قرآن وسنت کا پرچاراورشرک وبدعات ،رسومات کا خاتمہ کریں گے آپ تمام حضرات کو میں تین دن کی مہلت دیتا ہوں تاکہ اس مسئلے میں آپ حضرات اپنی پوزیشن واضح کریں ۔علاقے کے تمام بزرگوں نے آپ کی بات مان لیاور کچھ دنوں کے بعد جب ملک سلطان زرین (انور خيل) کے چچا وفات پاگئے تو بالاتفاق تمام رسومات ختم کرکے سنت طریقے پر ان کی تجہیز وتدفین عمل میں لائی گئی جو کہ اس علاقے میں ایک انقلاب تھا۔
اپنے استاد کے قائم کردہ تنظیم جماعت اشاعت التوحیدوالسنۃ سے آپ نے مکمل وابستگی اختیارکی اور مسئلہ توحیدکے خاطر آپ کو مصائب بھی جھیلنے پڑے۔ علاقہ ڈانقول سلارزو میں مشہور زمانہ مناظرہ میں اشاعت کی طرف سے آپ نے مناظر کی حیثیت سے شرکت کی۔
مولانا نور احمد ؒ (عُرف شاگئی بابا) کے وفات کے بعد آپ تنظیم کے ضلعی امیر منتخب ہوگئے تاحیات آپ اس عہدے پر برقرار رہے۔ آپ نے بڑے مشکل حالات میں جماعت کی امارت کا بوجھ سنبھالا اور تمام مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔
ایک طرف اگر آپ نقشبندی مجددی سلسلہ میں شیخ الحدیث حضرت مولانا نصیر الدین غورغشتوی ؒ سے بیعت تھے تو دوسری طرف روس کے خلاف جہاد میں بھی بھرپور حصہ لیا ، مقامی مجاہدین کی تنظیم ’’البرق مجاہدین‘‘ کے سرپرست کا کردار اداکیا، سُرخ ریچ کے خلاف جہاد کے لئے آپ نے اپنے خطبات میں اس پر خوب زور دیا۔
مولانا مرحوم کے صلبی اولاد اپنے والد کے مشن پر پابندی کے ساتھ کاربند ہیں۔ آپ کے سب سے بڑے بیٹے مولانا محمد اسماعیل سیّار صاحب ہیں۔ جودارالقرآن پنج پیر کے فارغ التحصیل عالم دین ہیں۔ دینی ودنیاوی علوم سے آراستہ ہیں۔ فی الحال وہ باجوڑ پختو ادبی کاروان کے صدر ہیں ، شعروادب سے بھی خاصا لگاؤ رکھتے ہیں، ایک فطری شاعر و ادیب ہیں،شیخ القرآن والحدیث حضرت مولانا عبدالجبار صاحب مدظلہ العالی کی شہرہ آفاق تفسیر ’’ فتح الرحمان‘‘ پر اس وقت اسماعیل سیّار اپنی مہارت آزما رہے ہیں ، پوری تفسیر کا منظوم ترجمہ جاری ہے جس کا اکثر حصہ اپنے تکمیل کو پہنچ چکا ہے۔ مولانا موصوف کے دوسرے فرزند محمد ابرہیم ہیں جو ایک بزنس مین ہے۔ مولانا موصوف کے ایک جواں سال فرزند جید عالم دین مولانا زین العابدین آفتاب کینسر کے موذی مرض کیوجہ سے وفات پاگئے ہیں۔ مولانا موصوف کے چھوتے فرزند مولانا محمد جمیل ثاقب ہیں جو کہ اسکول استاد ہیں اس کے ساتھ مختصر دورہ تفسیر دارالقرآن پنج پیر سے 6مرتبہ مکمل کرنے کی سعادت حاصل کرچکے ہیں۔ شیخ الحدیث مولانا محمد یاربادشاہ نوراللہ مرقدہ ،شیخ القرآن مولانا عبدالجبار صاحب مدظلہ سے بھی دورہ تفسیر پڑھنے کی سعادت حاصل کرچکے ہیں۔ والد مرحوم کے وفات بعد والد کے مسند پر امامت وخطابت اور رمضان المبارک میں دورہ تفسیر بھی پڑھا رہے ہیں۔
مولانا موصوف کے چھوٹے فرزند عمران ساجد شینواری ہیں۔ اپنے والد محترم سے دورہ تفسیر اور مختصر دینی کتب پڑھنے کیساتھ ساتھ بزنس ایڈمنسٹریشن میں ایم ایس سکالر اور اسلامک بینکنگ الشریعۃ بینچ میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔
مولانا موصوف کے چار بیٹیاں حیات اور دو فوت ہو گئے ہیں ۔
چونکہ مولانا موصوف ایک عالم دین ہونے کے ساتھ ایک ماہر طبیب اور حکیم بھی تھے اس جہاں اپنے علاقے کے عوام الناس کے روحانی علاج کا ذمہ اپنے سر لیا تھا اسی طرح ان کا جسمانی علاج بھی پوری زندگی کرتے رہے لیکن اپنے اس ہنر کو کاروبار کاذریعہ نہیں بنایا بلکہ پوری زندگی فی سبیل اللہ مریضوں کا علاج بِلامعاوضہ کرتے رہے۔
میانہ قد ، ہلکی دارڑھی ، نیلی آنکھوں کے حامل مولانا ایک محنت کش ، جفاکش انسان تھے جو ہمیشہ محنت اور مکمل لگن پر یقین رکھتے تھے۔ دیگر علماء کے نسبت بہت زیادہ سخی تھے علماء طلباء صلحاء پر اپنا مال خرچ کرنے کو اپنی سعادت سمجھتے۔ انتہائی سادہ مزاج کے حامل تھے۔ آپ نے پوری زندگی اس طرح گذاری کہ کبھی کسی کھانے میں دو قسم کے کھانے تناول نہیں فرمائے بلکہ جو کھانا سامنے ہوتا صرف اسی سے کھاتے ۔
اس دنیا میں ہماری آمد یہاں سے جانے کی دلیل ہے اس حقیقت سے کوئی انسان انکاری نہیں ۔ مولانا موصوف پر آخر عمر میں کئی بیماریاں حملہ آور ہوئیں، جن میں سرفہرست شوگر،بلڈپریشر اور کینسر جیسی موذی امراض شامل تھیں لیکن اس کے باوجود رحلت تک آپ سے کبھی تہجد کی نماز قضا نہیں ہوئی۔ آپ کی آرزو جمعے کے دن مرنے کی تھی اس کے علاوہ کبھی مرنے کا تذکرہ نہ کرتے بلآخر آپ کی یہ آرزو پوری ہوئی اور 24 جولائی 2015 بروز جمعہ کو اس دنیا سے رحلت فرماگئے۔ آپ کے جنازے میں بہت کثیر تعداد میں لوگ شریک ہوئے ۔ نماز جنازہ سے قبل شیخ القرآن والحدیث حضرت مولانا عبدالشکور صاحب مدظلہ (دیر خال) ، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمدصادق صاحب (سابقہ MNA باجوڑ) کے علاوہ علاقے کے دیگر علمائے کرام نے بھی خطاب فرمایا اور آپ کے خدمات کو سراہا۔ آپ کے وصیت کے مطابق باجوڑ کے بزرگ درویش عالم دین شیخ القرآن حضرت مولانا عبدالجبار صاحب مدظلہ العالیہ (حالاً شیخ الحدیث جامعۃ الامام محمدطاہر ؒ دارالقرآن پنج پیر) نے نماز جنازہ پڑھائی۔
آسمان تیری لحد شبنم افشانی کرے سبزہ نور تیرے در کی دربانی کرے
تحریر:
مفتی محمد بلال یاسر