غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے والے، رحیم اللہ کے خواب کشتی حادثے کے نظر ہو گئے ۔

قیاس خان
اٹلی کشتی حادثہ میں جاں بحق آخری فرد بیالیس سالہ رحیم اللہ کو آبائی علاقے باجوڑ میں سپرد خاک کر دیا گیا.
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ 26 فروری کو اٹلی کشتی حادثے میں 67 افراد ڈوب گئے تھیں،
جس میں آخری لاش باجوڑ سے تعلق رکھنےوالے بیالیس سالہ رحیم اللہ خان کی تھی جو 16 مارچ کو برٹش ائیرویز کے زریعے اسلام آباد ائیر پورٹ پہنچا دی گئی جہا ں پر ورثا کے حوالے کیا گیا ۔
ایک فلاحی ریاست میں ہر شہری کو تعلیم اور روزگار سے آراستہ کرنا حکومتِ کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے۔ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں۔ لیکن بد قسمتی سے ہمارے حکمران نوجوانوں کو روزگار دینے میں ناکام ہوتی ہے،
ظاہر ہے ایک نوجوان جو 15سے 20 سال تک اس امید پر تعلیم حاصل کرتے ہیں،تاکہ وہ اپنے خآندان کیلئے باعزت روزی کما سکے ۔
اپنے بچوں کے خاطر والدین اپنا سب کچھ قربان کر دیتے ہیں لیکن جب وقت آتا ہے تو منزل نہیں ملتی۔ ایسے میں ایک نوجوان خود کو روزگار پیدا کرنے کے لیے غیر قانونی راستے ڈونٹے ہیں
اسی کشمکش میں مبتلا باجوڑ کے نوجوانوں رحیم اللہ ،فہمیم ودیگر شامل تھے جنہوں نے چند مہینے قبل خود کو موت کے منہ میں دھکیل دیا۔

فوٹو دعا: رحیم اللہ کے تعزیت کئلئے ائے ہوئے لوگو ں کے فائل فوٹو ۔
رحیم اللہ بھی ان بدقسمت نوجوان میں سے ایک تھا جنہوں نے اپنے بہتر مستقبل کے خاطر چار مہینے پہلے غیر قانونی طریقے یورپ جانے کا فیصلہ کیا ۔
یہ دعا باجوڑ کے 42 سالہ رحیم کے لیے ان کے گھر پر آئے لوگ کررہے ہیں رحیم اللہ کی کشتی اٹلی کی قریب اس وقت ڈوبی جب وہ غیر قانونی طور پر ترکی سے اٹلی جا رہے تھے۔ ایک ماہ بعد ان کی لاش کو پاکستان منتقل کردیا گیا اور 27 مارچ کو ان کے آبائی قبرستان میں ان کی تدفین ہوئی۔
فہیم کی فائل فوٹو :
ان سے پہلے فہم ولد عبدالستار جن کا تعلق باجوڑ شاگو سے تھا اور فہیم جن کا تعلق صدیق آباد باجوڑ سے تھا، بھی اسی طرح اٹلی پہنچ پر گردے فیل ہونے کی وجہ کیمپ میں وفات پا گئے تھے۔
رحیم اللہ کے بڑے بھائی کے مطابق رحیم اللہ تین ماہ قبل ہوائی راستے سے ترکی گئے تھے اور اب چاہ رہے تھے کہ بہتر مستقبل کے لیے اٹلی جایا جائے لیکن بدقسمتی سے اس غیر قانونی راستے نے رحیم اللہ کو ہمیشہ کے لیے اپنے فیملی سے جدا کردیا۔
رحیم اللہ کے بڑے بھائی مومن کے مطابق رحیم اللہ نے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی تھی اچھے اخلاق اور اوصاف کے مالک تھے۔ وہ ترکی گئے تھے اورمیں نے انہیں کہا تھا کہ وہی ترکی میں رہے مگر انہوں نے کہا کہ نہیں لوگ اٹلی جارہے ہیں ہمیں بھی جانا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے کسی سے 22 لاکھ کے عوض بات بھی کی۔مومن نے کہا کہ انہوں نے لیگل طریقے سے کشتی میں اٹلی تک جانے کو ترجیح دیں جس پر ہم راضی ہوگئے۔ جس دن وہ کشتی میں جا رہے تھے تو حادثے سے تقریبا دس سے پندرہ منٹ پہلے انہوں نے میسج کیا کہ الحمد للہ ہم خیر و عافیت کے ساتھ پہنچنے والے ہیںاور دس منٹ پر ہم اپنے منزل پر اتریں گے۔ لیکن دس منٹ بعد ان کے ساتھ ہمارا رابطہ منقطع ہوا اور جب بعد میں پتہ چلا کشتی ( لانچ) حادثے کا شکار ہوئی تھی اور اس میں سوار تمام افراد ڈوب گئے تھے ۔
سوال : بہتر مستقبل کے لیے کسی کو باہر جانا چاہیے ؟
جواب : ہرگز نہیں جانا چاہیے ان کی بیوی بیوہ اور بچے یتیم ہوجاتے ہیں۔
رحیم اللہ کے چچا ماصم خان اور بھتیجے لقمان خاں کا کہنا ہے کہ رحیم اللہ نے اس سے پہلے سعودی عرب میں پانچ سال محنت و مزدوری بھی کی تھی تاہم ان کے کفیل نے ان کی اجرت نہیں دی تھی جس کی وجہ سے انہوں نے سعودی عرب میں مزدوری کو ترک کرکے یورپ کے غیر قانونی راستے کو اپنا لیا۔
انکا مزید کہنا تھا کہ سعودی عرب میں ان کا خاندان کا دوسرا فرد موجود نہیں تھا جب رحیم اللہ نے چھ سال تک وہاں پر مزدوری کی اور کفیل نے ان کا ساٹھ ہزار ریال ہڑپ کیے تو اس سے دل برداشتہ ہوا ، اور انہوں سعودیہ سے واپسی پر غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے کا مشکل فیصلہ کیا ۔
لقمان خاں نے بتایا کہ انکا چاچا رحیم اللہ بہت اچھا انسان تھا وہ ہمارے دوست کی طرح تھا تھے زیادہ تر لوگوں کے معلوم ہی نہیں ہوسکا کہ وہ میرے چچا ہے ہم جتنے بھی ان کے بھتیجے تھے سب کے ساتھ دوست کی طرح پیش آتے تھے۔ سعودیہ میں ان کی مزدوری ہڑپ کردی گئی تو وہ اس قدر تنگ آگئے کہ ان کی طرف دیکھنا تک گوارہ نہیں کرتے تھے۔

https://www.dawn.com/news/1739611
واضح رہے کہ 26 فروری کو کشتی الٹنے کے حادثے میں رحیم اللہ کے ساتھ 67 افراد جان بحق اور 80 افراد بچ گئے تھے۔
ان جیسے سانحات سے بچنے کے لیے حکومت پاکستان کو کردار ادا کرنا چاہیے ان نوجوانوں کے لیے اگر حکومت اچھے روزگار کے مواقع پیدا کرتے تو شاید یہ نوجوان آج اپنے فیملیوں کے ساتھ زندگی بسر کررہے ہوتے۔
حکومت وقت کو چاہیے کہ وہ ان سانحات کے تدارک کے لیے بہترین حکمت عملی اپنا کر پاکستان میں ہی نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کریں۔

یوتھ آف باجوڑ کے چیئرمیں اورسماجی کارکن انجینئرریحان زیب نے بتایا کہ ایسے بہت سے لوگ ان کے ساتھ رابطے کرتے ہیں کہ ان کا بیٹا یا بھائی ایران، ترکی یا افریقی ممالک میں پھنس گئے ہیں اوراب وہ جیل میں ہے یا کسی حادثے کا شکار ہوکرراستے میں یا مختلف ہسپتالوں میں زخمی یا مردہ حالت میں پڑے ہیں۔
اُن کے بقول اُن تک رسائی نہیں ہوپارہی اور اس حصے میں کافی زیادہ مسائل درپیش ہیں۔ اُن کاکہنا تھا کہ ہم اس کوشش میں ہےکہ لوگوں کو درپیش مسائل کم کرسکے اور کئی لوگ جوحادثوں کا شکار ہوئے تھے یا جیلوں میں قید تھے اس کوحکومت اورسماجی تنظیموں کےمدد سے اپنےگھروں کوپہنچائے ہیں۔
جس کی ایک مثال دوماہ پہلےایک نوجوان تھا جو حادثہ کا شکارہوا تھا اورلیبیا کےایک ہسپتال میں زخمی حالت میں پڑا تھا اس مسئلے کو سوشل میڈیا پراٹھایا اورصحافیوں کے ساتھ بھی اس خبرکوشئیرکیا تھا۔حکومت تک بھی پہنچایا اوراللہ کے رحم و کرم سےاس زخمی کوگھرپہنچایا اب وہ صحت مند ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ پاکستان میں لوگ سوشل میڈیا پریورپ یا دیگرترقی یافتہ ممالک کے تصاویر اور وڈیوزدیکھ کر اس طرف مائل ہو جاتے ہیں لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہوتاہے
باجوڑ سے غیر قانوی طریقے سے یورپ جانے والے لوگوں کے بارے میں حال ہی میں پشاور ٹوڈے ویب سائٹ پر شایع ہونے والے ارٹکل کے مطابق باجوڑ سے یورپی ممالک کو غیرقانونی طریقے سے جانے کا سلسلہ سن 2000 میں شروع لیکن 2015 کے بعد اس رجحان میں اضافہ ہوا۔ ان غیر قانونی سفر کرنے والے افراد کے بارے میں کوئی مستند ڈیٹا موجود نہیں ہے لیکن ایک انداز کے مطابق ہرسال باجوڑ سے 1500 کے لگ بھگ نوجوان غیرقانونی طریقے سے یورپ جاتے ہیں۔ غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے کے اس رجحان میں ہرسال اضافہ ہورہا ہے۔
پاکستان میں انسداد انسانی سمگلنگ کے لئے کاروائی کا اختیار صرف وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کوحاصل ہے اورہرصوبے کے دفترمیں اس کے لئےایک الگ سیل قائم کیاگیا ہے۔ خیبرپختونخوا کے ایف آئی اے دفتر میں محمد آفتاب بٹ ڈپٹی ڈائریکٹراور انسداد انسانی سمگلنگ سیل کے سربراہ کے مطابق کہ لوگوں کوغیرقانونی طریقے سے باہر لے جانے والے ایجنٹس غریب اورمجبورافراد کو جھوٹ بول کر نہ صرف اُن کے پیسے ضائع کردیتے ہیں بلکہ اپنے ہی پیسوں سے یہ لوگ موت خرید لیتے ہیں۔