کالم /بلاگ

پاکستان ایک کرشماتی ریاست  

تحریر؛ شیرزادہ             

 کرشموں پہ یقین کرنا  انسانی تاریخ سے وابستہ ایساجزہے، جیسے ہم آسانی سے نظرانداز نہیں کر سکتے۔ حضرت آدم علییہ السلام کے زمانے  سے لیکرحضرت محمدﷺتکٓ مختلف مذاہب کے ماننے والے کرشمات و معجزات پہ یقین رکھتے چلے آرہے ہیں اور شاید سائنسی ترقی و اجادات سے مانوسیتت بزبان سادہ ملحد طبقہ کرشمہ کی افادیت اور انسانی زندگی میں اس کی عمل دخل سے انکاری ہو، لیکن انسانی آبادی کی  اکثریت کرشمہ پر یقین رکھتی ہیں ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کرشمہ نہ ہی صرف مذہب کا بنیادی حصہ رہاہے ، بلکہ تمدن اورفعال سیاست میں اسکا کافی حد تک عمل دخل رہاہے۔سیاسی اعتبار سے اس حکمران یا سیاستدان کو کرشماتی شخصیت تصور کیا جاتا ہے جب مشکلات کے باوجود وہ سخت حالات پر قابو پالے۔  تاہم یہ بہت لمبی چوڑی بحث ہے کہ قائد یا لیڈر پیدائشی ہوتاہے ،یعنی قیادت کی خوبیاں بعض انسانوں میں موروثی طور پر پائی جاتی ہیں ،یا انسان کی ذاتی تگ و دو،محنت و جستجوں انسان کو قیادت کرنے کی نہج پر لے جاتی ہیں ۔لیکن انسانی زندگی میں   کرشمات کی حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔شاید ہم میں سے کسی نے یہ نہیں سوچا ہوگا کہ ریاستیں بھی کرشمات کی بناء پر وجود میں آتی ہیں ۔

جی ہاں ! ریاستیں ، ان ریاستوں میں پاکستان بھی ایک ایسی ریاست ہے ،جو ممکن ہےکسی  کرشماتی نظام کی برکت سے معرض وجود میں آیا ہو۔ کیونکہ پاکستان قائم ئے  ستہر بہتر سال ہوگئےہیں ،یہاں پر جس کو بھی اقتدار ہاتھ لگا،اس نے ملک کی معیشت ،اسکی سالمیت کا ستیا ناس کر دیا۔ انتخاب لڑنے سے پہلے ہرسیاستدان خود کو آمین و صادق پیش کرکے سادہ لوح عوام کے دل ایسے جیت لیتا ہے ،جیساں کہ شہد بچنے والا گاڑھی چینی کا شربت بناکر اسے شفاء نبویؑ کہلاکر گاہکوں کے دل جیتتا ہے۔ اور اقتدار میں آنے کے بعد جو حالت ہوتی ہے ، اس کا علم آپکوں آپ کے گھر، گاوں اور شہر وقصبے میں حایات برزگوں سے داستان پوچھنے پر ہو ہی جائیگا،کہ ان سے سیاستدان کن وعدوں کیساتھ ووٹ لیتے تھے اور جب انتخابات میں سُرخ ہوجاتے تھے تو پھر ان کا رویہ کیسا ہوتاتھا۔اگر آپ کی یاد داشت بوسیدہ نہیں ہوچکی ہو،تو پرانے سیاستدانوں کیساتھ ساتھ ملک کے مُحافظین کی سوانح حیات پر ایک نظر ڈالیں تو آپ کو معلوم پڑجائیگا کی اّنھوں  نے کس طرح ملکی معیشت اور آئین کیساتھ  کھلواڑ کرکے اس کو تباہی کے دہانے پر پہنچایا ہے اوراس کےباوجود بھی یہ  ملک قائم ہے  تو آپ کو حیرت ہوگی کہ واقعی آپ کا ملک یعنی پاکستان اب تک کسی آسمانی کرشمے کےسہارے چل رہا ہے۔حکمران خواہ وہ سیاسی پس منظر سے ہو یا رجسٹرڈ محافظ  ہو اپنے دور اقتدار میں بظاہر اپنے اچھے کارناموں کی وجہ سے اتنا مقبول ہوجاتا ہے ، کہ اُس پہ معاشرہ عام میں تنقید کرنا گناہ سمجھاجاتا ہے، اور جو تنقید کرنے کی جرات کرتے ہیں یا توانھیں  پابند سلاسل کیا جاتا ہے ۔جن کی مثالیں اُردو زبان کے عظیم شاعر حبیب جالب، ناول نگار سعادت حسن منٹوں کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہیں،اوریا ایسی  بے دردی سے  اُن  کو ابھی تک  مارےجاتے ہیں ،جن  کی مثالیں دینا شاید خطرے سے خالی نہ ہو۔ لیکن جب ان لوگوں کی اقتدار کا دورانیہ اختتام پزیرہوجاتا ہے ۔تب عوام کی ہوش ٹھکانے آجاتے ہیں ، کہ فلاں حکمران وقت نے ملک کو فلاں طریقے سے لوٹا۔مگر یہ المیہ زیادہ دیر تک محفوظ حافظہ نہیں رہتا۔کیونکہ ہمارے ملک کا سیاسی و اخلاقی سفینہ ہمہ وقت اک سمت میں محو سفر نہں رہتا، بلکہ گردشی موجوں کی نظر ہوجاتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ  ہے کہ سفینہ ایک ہے اور ملاح بے شمار ۔جس کے ہاتھ میں چپوں آیا سفینے کا رُخ اس نے اپنے حساب سے موڑ دیا۔ حالیہ حکو مت کی مثال لیں اقتدار میں آنے سے پہلے انصاف کی فراہمی ،کرپشن کے خاتمے اور معاشی انقلاب لانے کی بُلند وبانگ دعوے کررہی تھی۔لیکن اقتدار میں آکر پرانے زمانے کی پیر مریدوں والی فریادیں شروع کیے۔اور جوکام حکومت وقت کی ذمے ہوتے ہیں اُن سب کا ذمہ اللہ پہ ہی چھوڑ دیا ۔ قوم سےڈھائی کروڑ ملازمتیں دلوانے کا دعوہ کیاتھا،جن میں پانچ ہزار تک کی گھنتی بھی پوری نہیں کی۔ اس کے بر عکس ریٹا ئرڈ فوجی  حضرات کو اہم قلمدانوں سے نوازا۔ چاہیے تو یہ کہ متعلقہ شعبہ میں مہارت رکھنے والے افراد کوان عہدوں کی فرائضی منسبی کے احکامات جاری ہوتے، لکین کرشماتی ریاست کے کام بھی کرشماتی ہوتے ہیں ،غریبوں کیلئے  پچاس لاکھ  گھر بنانے کا وعدہ کیا تھا ،بمشکل پچاس ہزار بھی نہیں بنا ئے۔  اگر پچاس لاکھ ٹینٹ بھی ٖغریب عوام کومیسر ہوتی تو تب بھی یہ کہا جاسکتا تھا کہ حکمرانوں نے دانشمندی کافیصلہ کیا ہے۔وزیر خوراک خود ذخیرہ اندوزی کیس میں ملوث پایا جاتاہے اور غریب عوام رزق کیلئے سڑکوں پر سرآپا احتجاج نکل آتی ہیں ،ہے نا یہ معجزے کی ریاست! مریض علاج کیلئے ہسپتالوں کا رُخ کرتے ہیں ،ڈاکٹرز ان کا علاج کرنے کی بجائے احتجاجا ہسپتال بند کر دیتے ہیں ،کرپشن اتنی کہ کرپشن کیسز کے فائل عدالتوں میں سڑ گئے لیکن ملکی خزانے پر کوئی اثر نہیں ۔ہے نا! یہ کرشماتی ریاست ۔صحافی سچ کی خبر چلانہں سکتا،اسے خاموش کرانے کیلئے یا تو لفافے میں رقم کی پیشکش کیجاتی ہے،یا موت کا فرمان بھیجا جاتا ہے ،  ہے نا یہ کرشموں سے بھرا ملک۔  وکیل صا حب کا کالا کوٹ جیسے عدل کی علامت سمجھتا ہے اس کے جیب ضمیر فروشی کی چھٹیوں سے خالی نہیں ہوتیں اور پھر بھی لوگ عدالتوں سے انصاف کی توقع کرتے ہیں ۔غرض یہ کہ ہر جگہ ہر میدان میں کرشمے ہی کرشمے ہیں اور کرشموں سے یہ ملک قائم ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button