
تحریر: شیرزادہ
یوں تو ڈپٹی کمیشنر کے پاس ہر ضلعے میں دوسرے سرکاری اُمور کی نگرانی کیساتھ ساتھ اشیاءضرورت کی قیمتوں پر نظر رکھنا اور گرانفروشوں کیخلاف قانونی کاروائی کرنے کا اختیار ہوتا ہے ۔ اسلئے وہ ضلعی سطح پر ہر چھوٹے و بڑے بازار میں اشیا ء رومزہ کا نرخ نامہ ارسال کرنے اور اس نرخ نامے کیمطابق دوکانداروں سے مذکورہ اشیاء فروخت کروانے کی ذمہ داری ہوتی ہیں ۔
قبائلی ضلع باجوڑ میں صوبہ خیبر پختونخواہ کیساتھ انضمام کے بعدسےصوبے کے دیگر شہری علاقوں کی طرح نرخ نامے کا اطلاق عام ہواہے ۔ لیکن تاحال سرکاری نرخ نامے میں ڈپٹی کمیشنر کے دفتر سے اشیاء خورد نوش کی متعین کردہ قیمتوں کے برعکس ہی چیزیں فروخت ہورہی ہیں ۔ اس مسئلے کو آج باجوڑ ٹائمز کی ٹیم نےجاننے کی غرض سے ضلع باجوڑ کے دارالخلافہ خاربازار اور اس کے بعد دوسرے بڑے کاروباری مرکز عنایت کلے بازار کا رُخ کیا۔ سبزی فروش وثمرفروش ٹھیلے والوں اور دکاندار وں سے مختلف سبزیوں اور پھلوں کے دام پوچھنے پر سرکار ی نرخ نامے کے برعکس چیزیں بیچنے کا انکشاف ہوا۔جب نرخ نامے کا پوچھا گیا۔ تو اکثر سبزی اور پھل فروشوں کے پاس سے نرخ نامہ دانستہ طور پر غائب کرنے کا تاثر ملا، اور جن کے پاس سے ملا تو وہ دو تین دن کاپرانا ملا۔ ریڑھی،ٹھیلے اور سبزی و پھل کی دکان پر نظر دوڑائی تو دیکھا کہ نرخ نامے میں درج پہلی، دوسری اور تیسری کیٹیگری کی سبزی اور پھل میں کوئی تمیز ہی نہیں۔ جو تھا جیساتھا پہلے کیٹیگری یعنی اچھی کوالٹی کی قیمت پر فروخت ہورہاتھا۔

نرخ نامہ نہ رکھنے اور پرانا نرخ نامہ آویزاں کرنے کی وجوہات جانچنے پر باجوڑ ٹائمز کو معلوم ہواکہ سرکاری نرخ نامے میں استعمال ہونے والا کاغذ بھی غیر معیاری ہے ۔ ڈپٹی کمشنر باجوڑ کے فرمان سے جاری کردہ نرخ نامہ فوٹو کاپی کی شکل میں ضلعے کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک ہر صبح پہنچا دیا جاتا ہے جسے ہر روز ہر دکاندار کے ہاتھ میں بیس روپے کے عوض تمھا دیا جاتا ہے ، جس کی فوٹو کاپی بمشکل چھ سات روپے میں بنتی ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سبزی وپھل فروش حضرات بیس روپے کے بے معنی رقم آدا کرنے سے جان چھڑاکر معمول کیمطابق گاہک کو قربانی کابنا دیتے ہیں ۔اور روایتی انداز میں مقررہ قیمتوں سے سبزی وپھل فروخت کرکے زیادہ منافع کما لیتے ہیں۔ اور انتظامیہ کی ذمہ داری صرف نرخ نامہ بیس روپے میں ہر سبزی و پھل فروش کو بیچ کر ختم ہوجاتی ہے۔یوں دونوں طرف منافع ہے منافع رُلنا ہے توبس عوام نے ہی رُلناہے۔
فرض کریں پورے ضلعے میں 5000 سبزی و پھل کی دکانیں ہیں تو روزانہ کتنی آمدنی ضلعی انتظامیہ کے کھاتے میں آتی ہے یا کتنا پیسہ خورد بورد و کرپشن کے نذر ہوجاتا ہے