ماحولیات

قبائلی ضلع مہمند میں معدنیاتی وسائل ترقی کے  ضامن یا مسائل و قومی تنازعات کا منبع

بروقت تدارک نہ ہو تو ایک تنازعہ سارے علاقے میں کئی مسائل کو جنم دیتا ہے۔معدنیات کے چند منرل مائنزبندش کی وجہ سےقومی بے اتفاقی، لالچ اور معاہدوں سے روگردانی کا تاثر جاتاہے۔

سعید بادشاہ مہمند

 پیر کے دن 21 دسمبر 2015 کویونیورسٹی میں   بی ایسں( )انگلش کی کلاس میں شوق اور لگن کے ساتھ بیٹھا پڑھ رہا تھا۔ کہ اسی اثنا گاؤں سے کال آئی کہ والد صاحب کی گاڑی پر بم دھماکہ ہواہے۔جس میں وہ زخمی ہے آپ اپنے بھائیوں کولے کر فوری طور پر گاؤں پہنچ جائے۔والد کی زندگی سے متعلق خدشے کی خبر سنتے ہی میرے اوسان خطا ہوگئے۔ یونیورسٹی سے نکل کر فورا اپنے سے چھوٹے بھائیوں کوان کے سکولوں سے لے کر اپنے گاؤں مہمند ایجنسی پہنچ گیا۔ تو خبر قیامت بن کر ٹوٹ پڑی کہ میرے والد صاحب ماربل مائنز کے مضافاتی علاقے میں گاڑی پر بارودی سرنگ دھماکے  میں شہید ہوچکےہیں ۔ضلع مہمند تحصیل حلیمزئی کے 27سالہ ادران خان نے بتایا کہ اس وقت میری عمر 20 سال تھی اور مجھ سے چھوٹے چار بھائیوں اور والدہ کو تسلی دینے کی ذمہ داری مجھ پر آں پڑی۔ہمارے خاندان میں  اس بڑے سانحے  کے بعد گھرکے معاملات چلانے کی ذمہ داری  نے مجھے یک دم زمانہ طالب العلمی جہاں میں دنیاوی مسائل کی قید  سے آزاد زندگی  گزار رہاتھا ،سے نکال کرکم عمری ہی میں مشکلات کے دو راہے پر لا کھڑا کردیا۔میرے والد حاجی عمر خان مرحوم  قبائیلی ضلع مہمند تحصیل حلیمزئی چاڑاگان کے رہائشی تھے۔ اور وہ پہلے مقامی سرمایہ کار تھے جنہوں نے دہشت گردی کے جنگ کے دوران  خطرے سے دو چار علاقہ بائزئی تورہ خواہ کے پہاڑ سے ماربل نکالنے میں  سرمایہ کاری کی۔  تاہم سرمایہ کی کمی کے باؤجودانہوں نے ہمت نہیں ہاری اور قومی اتفاق کے بعد پہاڑ کی لیزلے کر کام شروع کردیا۔شدید سرد و گرم موسمی حالات  اور سیکیورٹی خطرات کے باؤجودپرائیویٹ بلڈوزر اوربھاری  مشینوں کے ذریعے سخت اور اونچی پہاڑ میں کئی کلومیٹر کچا روڈ بنا کر مشینری پہنچائی اور مائنز کی کھدائی پر کام شروع کردیا۔پہاڑ سے ماربل نکالنا شروع ہوگیا تو میرے والد سمیت دوسرے  سرمایہ کارٹھیکیداروں کو محنت کا پھل ملنے لگا۔اور پہلی بارماربل کی آمدنی سے ملنگ کور قوم کے مقامی غریب لوگوں کو بھی کمیشن ملنے لگا اور قومی خزانے کے لئے بھی ٹیکس کی مد میں آمدن کے نئے ذرائع تخلیق ہوئیں۔ والد صاحب زیادہ لکھے پڑھے نہیں تھے۔ اس لئے ان کی شدید خواہش تھی کہ ان کے بچے اچھی تعلیمی اداروں میں پڑھے۔ سازگار تعلیمی ماحول دینے کے لئے انہوں نے پشاور میں گھر لیا اور ہمیں منتقل کرکے پشاور کے بہترین تعلیمی اداروں میں داخل کرایا۔2011سے 2015تک بد امنی اور دہشت گردی کی سخت لہر کے باؤجود انہوں نے تورہ خواہ ماربل کی اخراج کیلیے پہاڑ کی کھدائی اور حصول جاری رکھی۔ہم بے فکری سے پشاور میں رہ کر تعلیم حاصل کررہے تھے۔ اوروالد صاحب کا زیادہ تر وقت اپنے مائنز کی دیکھ بال اور مہمند ایجنسی موجودہ ضلع مہمند میں گاؤں میں رہ کر کاروباری معاملات کی دیکھ بھال میں گزر رہا تھا۔والد کے تعاون  سے مجھے اور میرے دو سرے بھائی یاسراورتیسرے بھائی ذیشان کو بڑی بے فکری سے تعلیمی مواقع میسر ہوئیں ,کالج کے دور سے مجھے انگلش لیٹریچر میں دلچسپی تھی ۔ 2015 میں سٹی یونیورسٹی  پشاور میں بی ایس انگلش   میں داخلہ لیا۔ جس سے   پر سکون ماحول میں  میرا امید کے ساتھ آگے بڑھنے کا عزم مزید پختہ ہوا۔ اس طرح ہماری پڑھائی جاری تھی۔ کہ اس روز کے ایک فون کال نے میری زندگی کی کایہ پلٹ دی۔جیسے میں عرش سے فرش پر آگیا۔ دو سال تک تو مجھے اپنا گھر اور کاوربار سنبھالنا بھی نہیں آیا تھا۔ کہ ایک سازش کے تحت سال  2017 میں ہمارے ماربل مائنز پر قبضہ کرنے کے لئے قومی تنازعہ پیدا کیا گیا۔ جس کی وجہ سے  ہمارے ماربل مائنز بند ہوئے۔ پولیٹیکل انتظامیہ کے دفاتر کے چکروں اور جرگوں سے بھی نتیجہ نہیں نکل سکا۔ اس دوران ہمارا کاروبار بند ہونے سےہم  معاشی مسائل کے شکارہوئے اور میں نے  بی ایس انگلش پانچویں سمسٹر میں ادھورا چھوڑ دیا۔

اوپر سے تنازعہ کی قانونی حل ڈھونڈنے کی پریشانی نے گھیر لیا۔   ۔ والد کے وفات کے بعد ماربل پہاڑ تنازعہ کی وجہ سے مجھ سے چھوٹے دو بھائیوں یاسر اور ذیشان کی تعلیم پر ہم زیادہ توجہ نہ رکھ سکے۔اس طرح میرے بعد دو نوں نے میٹرک میں ہی تعلیم چھوڑ دیا۔ہم تینوں کے بعد سب سے چھوٹے جو دو بھائی ہیں وہ  اب سکولوں میں پڑھ رہے ہیں۔ انضمام کے بعد ہمیں امید پیدا ہوئی تھی کہ ہمارے بند مائنز جو کہ قانونی لحاظ سے درست ہیں وہ شروع ہونگے اور قانون کی عملداری ہوگی۔ مگر بد قسمتی سے انضمام کے چار سال کے بعد بھی ہمارا مسئلہ وہی کی وہی اٹکا ہواہے۔ اس دوران مخالف فریق کے ساتھ لڑائی جھگڑوں تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔  ادران خان ولد حاجی عمرخان ٹھیکیدار نے بتایا کہ وہ  انصاف کے اس سست عمل، لوگوں کی معاہدہ شکنی اور ماحول سے اکتا چکا ہے۔ والد کی بارودی سرنگ دھماکے میں شہادت اور اس کی سرپرستی سے محروم ہونے کا صدمہ الگ اور کاروبارمیں رکاوٹ اور مالی نقصان نے مجھے سخت امتحان اور ذہنی پریشانی سے دوچار کردیا ہے۔ کیونکہ نہ ایف سی آر دور میں اور نہ انضمام دور میں اس کے مائنز بحال ہوسکے ہیں۔ 2017؁ میں میرے قریبی رشتہ دار حاجی سیدرحمان نے ہم سے  ذاتی تلخی اور حیلے بہانوں کو جواز بنا کرقوم کے چند افراد کو ساتھ ملا لیا اور تعصب پیدا کرکے کام بندکرادیا۔اور ہمیں بچے سمجھ کر ہمارے مائینز پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی کی اور ذاتی لالچ کے لئے میرے سارے خاندان کا مستقبل داؤ پر لگا دیا ہے۔مائنز کی بندش کے بعد ہم نے قانون کا سہارا لیا۔ ایف سی آر دور کے متعلقہ اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ میں 2017؁ کودرخواست  دی تو وہاں سے کیس فاٹا ٹریبیونل، پشاورکمشنریٹ، ہائیکورٹ، سیشن کورٹ،منرل ٹائٹل کمیٹی، سیکرٹری مائنز اینڈ منرلز اور وہاں سے حال ہی میں کیس ڈی آر سی مہمند کوحل کے لئے بھیجا گیا ہے۔مختلف فورمز پر اپنے کیس کی پیروی اور حق کی دفاع کے لئے اب تک میرے 8کروڑتک روپے خرچ ہوچکے ہیں۔ڈی آر سی میں کیس آنے کے بعدبائزئی ضلعی انتظامیہ کے سامنے بار بار پیشی کی تاریخوں پرہمارے لیز معاہدے کی تصدیق و تائید کے لئے قوم کو اکھٹا کرنا پڑتاہے۔جس پربھی ہمارے لاکھوں روپے خرچ ہوگئے ہیں۔ اور اب بھی امید کی کرن نظر نہیں آرہی ہے۔ کچھ لوگوں نے ذاتی مفاد کے خاطر عہد شکنی کی۔ اورمائینزپر کام بند کرادیا گیا ہے۔نہ حکومت نے مجھے میرا حق دلوایا نہ قومی مشران نے داد رسی کی ہے۔ میرا کاروبار بند اور روزگارتباہ ہورہا ہے۔ اور کروڑوں کا سرمایہ پانچ سال سے پھنسا ہوا ہے۔اورہم  6سال سے کھبی عدالتوں اور کبھی ڈی آر سی کے چکر میں  ہوتے ہیں۔ میرا حکومت سے مطالبہ ہے کہ قومی خزانے کیلئے ٹیکس کے نئے مواقع پیدا کرنے والے ٹھیکیداروں اور ان کے بچوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنائے۔

فریق اول – حاجی عمر خان مرحوم  فائل فوٹوز

اس تنازعے کے دوسرے فریق حاجی سیدر رحمان ملنگ کور تحصیل بائزئی نے جبار جوہڑ کے مقام پر اپنے حمایتیوں کے ہمراہ میڈیا کو بتایا کہ 2004میں تورہ خواہ ماربل پہاڑ ملکیت رکھنے والی قوم بائزئی ملنگ کور کے عمائدین نے حاجی عمرخان اور جمعہ دراز خان نامی ٹھیکیداروں کو الگ الگ جگہ دے کر رضا مندی سے لیزمعاہدہ کیا تھا۔ جو کہ 2017؁ میں ختم ہواہے۔ اس کے بعد حاجی عمر کے وفات کے بعد ان کے بھائی حاجی نواب کے ساتھ قوم کی مزید رضامندی نہیں تھی۔ جبکہ جمعہ دراز کے ساتھ قوم کے معاملات ٹھیک رہے۔ اور اس کے کام کرنے پر قوم کو اعتراض نہیں تھا۔انہوں نے الزام لگایا کہ 2017؁ میں حاجی نواب ٹھیکیدار نے سارے قوم کو اعتماد میں لیئے بغیر پیسے دے کر راتوں رات لیز کی دوبارہ تجدید کی ہے۔ جو ہم کو منظور نہیں۔اس لیز کے خلاف ہم نے اے پی اے بائزئی، فاٹا ٹربیونل، عدالتوں میں کیس کئے اور ہرفورم پرہمارے موقف کوفوقیت دی گئی۔انہوں نے کہا کہ جمعہ دراز ٹھیکیدار کا لیز قوم نے خود لیا ہے۔ اور کروڑوں روپے کے ماربل پتھر نکال کر پہاڑ میں پڑے ہیں۔ مگر نواب ٹھیکیدار نے ہمارے آزاد مائنز کو بھی متنازعہ بنا کر بند کردیا ہے۔ جو کہ قوم کے ساتھ زیادتی ہے۔

فریق دویم فائیل فوٹو

انہوں نے کہا کہ 2017؁ کا دوبارہ لیز ساز باز پر مشتمل اور جعلی ہے۔ اس لئے اسے قوم مسترد کرتی ہے اور کسی صورت ماننے کو تیار نہیں۔ اس لئے انتظامیہ انہیں لاکر قوم کو مشتعل نہ کریں۔انہوں نے کہا کہ اس کیس  کی مختلف عدالتوں میں پیروی پر ان کے دو کروڑ روپے تک خرچ ہوچکے ہیں۔ہمارے پہلے بھی مخالف فریق سے جھگڑے ہوچکے ہیں۔ جس کے کیسیز مختلف تھانوں میں درج ہیں۔ اس لئے حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ تصدیق کرکے ہمارے غیر متنازعہ مائنز کو چالو کریں۔

ملنگ کور کے ہی قومی مشران کے دوسرا دھڑا جو کہ حاجی عمر اور حاجی نواب ایگریمنٹ کی حمایت کرتی ہے۔ ان میں سے ایک حاجی خانزادہ  نے ملنگ کور کے دیگر عمائدین ہمراہ  بتایا کہ تورہ خواہ ماربل پہاڑ جو کہ کئی سال کامیابی اور خوشحالی کے ساتھ چالو تھا۔ مگر 6سال پہلے قوم کے بعض مشران نے لالچ میں آکر اشتعال اور جھگڑا شروع کردیا۔ اور حاجی عمر شہید کے زیراثر جاری  مائنز کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرکے بند کرایاگیاہے۔ جو کہ ایک سازش اور حاجی عمر کے یتیم کم عمر بچوں کے ساتھ زیادتی اور وعدہ خلافی ہے۔ کیونکہ 2004میں ہمارے مشران نے حاجی عمر کے ساتھ رضامندی سے معاہدہ کیا تھا۔ اور ان کے شہادت کے بعد 2017میں ملنگ کور کے قومی مشران نے پھر رضامندی سے حاجی عمر کے بیٹے ادران اور بھائی حاجی نواب کے ساتھ معاہدے کی تجدید کی اور قومی ایگریمنٹ کیا ہے۔انہوں نے الزام لگایا کہ تنازعہ کھڑا کرنے والے ملنگ کور کے حاجی سید رحمان نے علاقے کے بااثر شخص کو شراکت پر شامل کرکے ہمیں ان کے طاقت سے ڈرایا جاتا ہے۔ اس زور پر انہوں نے آدھا لیزہماری رضا مندی کے بغیر اپنے بیٹے شاہد رحمان کے نام کیا ہے۔ جو کہ ملنگ کور کے مستقل باشندوں کے ساتھ مذاق ہے۔اسے فوری منسوخ کیا جائے۔ ڈی آر سی کی دوبارہ رائے شماری میں اے سی بائزئی کے گٹھ جوڑ سے غیر مقامی افراد کو مقامی شمار کرکے ہمارے اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جو کہ ہمیں کسی صورت قبول نہیں۔ ہم حاجی نواب کے ساتھ معاہدے پر قائم ہیں اور اسے پہاڑ کے اصل ٹھیکیدار  مانتے ہیں۔

ضلعی انتظامیہ کے اعداد و شمار کے مطابق قبائیلی ضلع مہمند کے 6تحصیلوں میں معدنیات کے کل 219مائنز رجسٹرڈ ہیں۔ جس میں ماربل کے 118، قیمتی پتھر نیپرائٹ کے 54، کرومائٹ کے 14، مینگانیز کے 4اور کاپر کے 3 مائنز شامل ہیں۔ اس کے مطابق اپر مہمند میں 45 مائنز، لوئر مہمند میں 99 اور بائزئی سب ڈویژن میں 75 مائنز کی اپلائی منظور کی گئی ہے۔ جس میں اکثر پر کام جاری ہے۔ گزشتہ دو سال کے دوران ضلع مہمند کے پہاڑوں میں مختلف معدنیات کے آثار ملنے کے بعد ایک سو تک نئے جگہوں کی لیز کے لئے سرمایہ کاروں نے اپلائی کیا ہے۔پہاڑوں سے معدنیات کی مد میں  اچانک نئے آمدن کے ذرائع نکل آنے کے بعدملکیت کے زیادہ دعویدار سامنے آجاتے ہیں۔ قوم اور ٹھیکیدار کے درمیان لاکھوں کروڑوں روپے ایڈوانس  رقم اور کمیشن کی لالچ سے آپس کی بے اتفاقی جنم لیتی ہے۔جو بڑھ کر بعض علاقوں کے معدنیات میں تنازعات جنم لیتے ہیں۔ عدم برداشت اور سخت رویوں کی وجہ سے قوم کا نقصان ہورہاہے۔چند ایک علاقوں کے علاوہ باقی تمام منرل مائنز تحفظ اور اطمینان کے ساتھ چالو ہیں۔ جو قومی خزانے کو سالانہ کروڑوں روپے ٹیکس دینے کے علاوہ ہزاروں مقامی افراد کا وسیلہ روزگار بن گیا ہے۔

ڈی آر سی (DRC) جرگہ   فائل فوٹو

تحصیل صافی کے مشہور زیارت ماربل پہاڑ سے پیوستہ  200بہترین ماربل مائنز پر مشتمل باغ ماربل پراجیکٹ بھی آپس کے قومی اختلافات، ٹھیکیداروں اور قوم میں پائی جانے والی بداعتمادی کے باعث شروع نہ ہوسکا۔ اس نئے ماربل ذخیرے سے ہزاروں افراد کو بالواسطہ اور بلاواسطہ روزگار کے موقعے میسرہونے کی توقع ہے۔ مگر اس پرقوم دو حصوں میں تقسیم اور اپنے اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔اس میں صافی گربز قوم کے ایک فریق ملک باتور احمدصافی نے بتایا کہ پہلے فضل اکبرنامی ایک ٹھیکیدار نے قوم کے نمائندہ مشران کو کو اعتماد میں لئے بغیر چند افراد سے ساز باز کے ذریعے لیز حاصل کرنے کی کوشش کی۔تو قوم نے انہیں لکڑو تحصیلدار آفس سے نکالنے پر مجبورکیا اور ان پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔انہوں نے بتایا کہ تحصیل صافی باغ ماربل کی زمینیں گربز قوم کے چار شاخوں حسن خیل،تترخیل،ملاطم خیل اور ادین خیل کے مشران نے باغوانان کورہائش اور زمین وپہاڑکی دیکھ بال اور کاشتکاری کے لئے دی ہے۔یہ ہمارے برادری سے تعلق نہیں رکھتے مگر قومی فیصلوں کے بعد گربز قوم نے باغوانان کا 20فی صد حصہ تسلیم کیا ہے۔ا نہوں نے الزام لگایاسابقہ ڈی سی نے رمضان المبارک میں ٹھیکیدار کا ساتھ دینے کے لئے رات کے وقت باغوانان کے افراد کو بٹھاکر برائے نام اجلاس عام کیا۔ اور لیزمنظوری کی سفارش کی۔ جس کا قوم نے ماننے سے انکار کردیا ہے۔انہوں نے کہاکہ قوم کے بعض افراد  انتظامیہ اور ٹھیکیداران سے مل کر اپنے مفاد کے لئے قوم کو الجھارہی ہے۔ اور ان لوگوں پر ہمارا کمیشن تقسیم کا اعتماد بھی نہیں ہے۔ہمارا مطالبہ ہے کہ پہلے پہاڑ کی حد بندی اور قومی تقسیم کیا جائے۔ پھر قوم کے ہر ذیلی شاخ کی مرضی ہے کہ جس ٹھیکیدار کو دے یا خود قوم کے افراد لیز پر لے۔ کام شروع ہوا تو آمدنی شروع ہوگی۔ اور انتہائی غربت کے شکار قوم کے لوگوں کو فی گاڑی روزانہ کمیشن میں گھر کا چولہاجلانے کے برابر کمیشن ملے گا۔

باغ ماربل فریق اول  فائل فوٹو ۔۔۔۔۔۔۔۔

اسی باغ ماربل پراجیکٹ تنازعے کے دوسرے فریق کے مشر ملک گل شاہ صافی نے بتایا کہ قومی لوگوں کی ٹھیکیداروں کے ساتھ معاہدے سے روگردانی  اور لالچ نے   تنازعات کو جنم دیا ہے۔ قوم کے لوگ رضامندی سے اجلاس عام میں ٹھیکیدار کی تائید کرتے ہوئے لیز معاہدے پر دستخط بھی کرلیتے ہیں۔ ٹھیکیدار سے پیسے لے کر پھر باربار مزید رقم کے ناجائز مطالبے اور فرمائشیں کرتے ہیں۔انکار پر معاہدے سے مکر جاتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو پہاڑ ملکیت کے حقدار نہیں مگر کمیشن لینے کے لئے تنازعے کھڑے کردیتے ہیں۔اور جھوٹے دعوے کرتے ہیں۔

تنازعات کی وجہ سے قومی جرگوں اور عدالتوں میں کیسیز کا ایک سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔بعض لوگ ڈی آر سی کے فیصلے ماننے سے بھی انکار کردیتے ہیں۔ تو پھر حل کی جگہ جھگڑاتو پیدا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ انتظامیہ اور پولیس اپنی ذمہ دارایاں پوری نہیں کررہی اور حقدار کے حق پر چشم پوشی کرجاتے ہیں۔تنازعہ پیدا ہوکر ایک طرف مائنز بند ہوجاتے ہیں تو دوسری طرف دفاتر میں مسئلے کی حل میں ٹال مٹول سے کام لے کر فریقین کو رشوت دینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ملک گل شاہ نے کہا کہ تحصیل صافی کے نئے باغ ماربل پراجیکٹ میں 200مائنزہیں۔ جس کے ٹھیکیدار مال نکالنے کے لئے تیاری کرچکے۔ مگر قومی تنازعے اور تشدد پیدا ہونے کی خوف سے کام شروع نہیں ہوسکا ہے۔ اگر یہ مائنز شروع ہوگئے تو تقریبا 300ٹرک ماربل روزانہ نکالا جاسکتاہے۔ جس سے روزانہ کمیشن کی مد میں سینکڑوں خاندانوں کا چولہا جلے گا۔ جبکہ اس سے مزید ہزاروں کی تعداد میں لوگ  لیبرز، ٹرانسپورٹرز، ہوٹلز  اور فیکٹریوں میں کام کرکے برسر روزگار ہوجائینگے۔

باغ ماربل فریق دوم فائل فوٹو

مہمند معدنیات کے بارے میں ڈپٹی کمشنر قبائیلی ضلع مہمند عارف اللہ اعوان نے کہا کہ مہمند کے معدنیات صوبائی حکومت کے منرلز اینڈ مائنز امنڈمنٹ2019 شیڈول 8 کے تحت چل رہے ہیں۔ضلعی سطح پر منرل کمیٹی کاچیئرمین ڈپٹی کمشنر ہوتاہے۔ممبران میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر منرل ضلع مہمند، لائسنسنگ اتھارٹی کے نامزد کردہ لوکل مائننگ ایسوسی ایشن کانمائندہ اور نمایاں قومی مشرشامل ہیں۔ طریقہ کار کے مطابق ضلع مہمند میں کسی بھی جگہ معدنیات لیز کے لئے آن لائن اپلائی کیا جاتا ہے۔ جو ADمنرل کے پاس آکر اپنے دفتری کوائف کی تکمیل کے بعد ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر (فنانس) کے سربراہی میں مقرر کمیٹی کے پاس چلا جاتا ہے۔ متعلقہ تحصیلدار خود جاکر جگہ کا معائنہ کرتا ہے۔ کوائف درست ہو تو ضلعی انتظامیہ مذکورہ علاقے میں شیڈولVIII  کے شق 5 کے تحت اجلاس عام کے لئے وقت مقررکرتاہے۔ جو کہ پہاڑ کے ملکیت والے اقوام کے لوگوں کا اجتماع عام ہوتا ہے۔ جس کے لئے سات روز پہلے اخبارات میں مشتہر کیاجاتاہے۔ اور اجلاس عام کی اطلاع تاریخ اور جگہ کا پوسٹر گاؤں میں بھی نمایاں آویزاں کیا جاتا ہے۔ ضلعی انتظامیہ کے زیر نگرانی کمیٹی کی موجودگی میں کثرت رائے کی بنیادپر منظوری دی جاتی ہے۔البتہ کسی کو اعتراض ہو تو وہ اجلاس عام کے روز شکایت کرسکتے ہیں۔ اعتراض درست ہو تو تصحیح تک لیز اور اجلاس عام کا عمل روکا جاسکتاہے۔اگر اعتراض یا شکایت میں وزن نہ ہو تواجلاس عام کی کاروائی آگے بڑھائی جاتی ہے۔کامیاب ٹھیکیدارکا اجلاس عام میں قومی ایگریمنٹ کے بعد اے ڈی منرل تصدیقی لیٹر منرل ٹائٹل کمیٹی MTC کو منظوری کے لئے بھیجوا دیتے ہیں۔صوبائی سطح کے منرل ٹائٹل کمیٹی سے منظوری آنے کے بعدلیز ہولڈر کو ابتدائی طورپر دو سال سے پانچ سال تک کام کا اجازت نامہ دیا جاتا ہے۔ اور اس کے بعد لیز لائسنس جاری ہوتا ہے۔ ڈی سی مہمند عارف اللہ اعوان نے بتایاکہ اسی نظام کے تحت ضلع مہمند میں مختلف معدنیات کی 219مائنز پر کام ہورہا ہے۔اور سرمایہ کار ضلع مہمند کے معدنیات میں سرمایہ کاری کررہے ہیں۔موجودہ منرل پالیسی کے مطابق لیز میں مقامی باشندے کو ترجیح حاصل ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ219میں سے  بمشکل 20مائنز پر قومی تنازعات ہونگے۔تنازعات کی یہ شرح کافی کم ہے۔مگر اس کے باؤجودحکومت کی طرف سے قبیلوں کے درمیان پہاڑ و زمین تنازعات اور حد بندی کے مسئلوں کی حل کے لئے قائم ڈی آر سی جرگہ کی سفارشات پر عملدآمد سے تنازعات مرحلہ وار حل ہورہے ہیں۔ اب تک اقوام اور ٹھیکیداروں کے دیرینہ8   تنازعات اسی ڈی آر سی جرگے نے حل کئے ہیں۔ ڈی سی مہمند نے کہا کہ ڈی آر سی جرگہ کی ذمہ داری قبائیلی ضلع مہمند میں معدنیات کی تنازعات کی حل کی کوششوں تک محدود ہے۔

  ٹھیکیداران اور قوم کے درمیان کشیدگی اور اختلاف کم کرنا، معیاد کا تعین کرنااور تنازعات کی حل کے ساتھ کامیاب مائننگ کے لئے سازگار ماحول بنانا ڈی آر سی کی ذمہ داری ہے۔ ڈی آر سی کے فیصلے در اصل حل کی تجاویز ہوتے ہیں جو سیکرٹری منرل کو منظوری کے لئے بھیجوائے جاتے ہیں۔ ڈی آر سی کی بہترین کارکردگی کو دیکھتے ہوئے سول کورٹ،ہائیکورٹ اور MTC کے پاس کی جانے والی درخواستیں حل کے لئے معزز عدالتیں واپس ڈی آر سی کو بھیجوائی رہی ہے۔ اس کے علاوہ معدنیات میں قومی کمیشن طے کرنے کے لئے منرل لیزان کمیٹی بھی ہے۔ جس کا چیئرمین ڈپٹی کمشنر مہمند، ڈی پی او مہمند اور اے ڈی منرل ضلع مہمند ممبران ہوتے ہیں۔ جو وقت اور آمدن کے حساب سے ٹھیکیدار کے ساتھ قومی کمیشن معلوم کرتے رہتے ہیں۔

ڈپٹی کمشنر عارف اللہ اعوان نے بتایاکہ صوبائی حکومت کی قبائیلی اضلاع کے لئے منرل پالیسی واضح ہے۔ جس میں مقامی ٹھیکیداروں اور متاثرہ علاقے کے مقامی لوگوں کے مفاد کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔اورہرمتعلقہ فردکو اجلاس عام میں رائے کی کھلی آزادی دی گئی ہے۔ اگراس قانونی عمل کے بعدمنظورلیز پر کوئی فردیا افراد تنازعات کھڑے کرے گا۔لڑائی جھگڑے کرکے معدنیات کے کام کو رکواتاہے۔ تو پھر یہ شخص یا افراد جرم کررہے ہیں۔ اور مجرموں کے لئے قانون میں سزا اور طریقہ کار موجود ہے۔اور ارتکاب جرم کرنے والے قانون کا سامنا کرینگے۔

ڈپٹٰی کمشنر فایل  فوٹو            ٖ

معدنیات تنازعات سے معدنیات ٹرانسپورٹ یونین ضلع مہمند  کو ہونے والے نقصانات کے حوالے سے صدر حاجی عارف اللہ نے کہا کہ ضلع مہمند کے بعض علاقوں میں چالو مائنز کی قومی تنازعات پر بندش سے ہماری ٹرانسپورٹ  پر براہ راست منفی اثر پڑ رہاہے۔کیونکہ مقامی طور پر ہمارے یونین کے پاس رجسٹرڈ 12سو سے زائد مال بردارٹرک گاڑیاں ہیں۔ جو مختلف تحصیلوں سے ماربل دشوارگزار خطرناک راستوں لانے سے لے کر پروسس شدہ  مال ملک کے دیگر علاقوں تک سپلائی میں مصروف رہتے ہیں۔ مہمند معدنیات ٹرانسپورٹ یونین کے تین ہزار سے زائد ڈرائیور اور کنڈیکٹرزہیں اور پانچ ہزار تک لیبر کا  روزگاربھی وابستہ ہے۔ مزدوروں کی اکثریت  اپنے گھرانے کے واحد کمانے والوں کی ہیں۔اس کے علاوہ ضلع مہمند کے مقامی ہوٹلز، ٹائر شاپس، پٹرول پمپس کی کامیابی میں بھی مہمند ٹرانسپورٹ یونین کا اہم کردار ہے۔مگر کسی چالو مائنز کی بندش ہمارے روزگار کو فوری طور پر متاثر کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں قومی تنازعات تعلیم کی کمی کی وجہ سے ہے۔ لوگوں کا قانون ہاتھ میں لینا اور اشتعال  ماربل صنعت کو بہت نقصان پہنچا رہا ہے۔کسی ایک ماربل پہاڑ کی بندش سے ان سے وابستہ 60-70ماربل ٹرکس فارغ ہوجاتے ہیں۔ جو عام ٹرانسپورٹ کے ساتھ مل جائے تو بوجھ بن کرپھر کئی روز تک پھیرے کے لئے باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ موجودہ وقت میں تحصیل بائزئی اور تحصیل صافی ماربل مائنز کی تنازعات کی وجہ سے بندش  سینکڑوں گاڑیا ں فارغ ہوگئی  تو وہ  گاڑیوں کے اقساط بھرنے اور اپنے بچوں کو فاقہ کشی سے بچانے کے لئے دوسرے مائنز کا رخ کرنے لگے مگر وہاں پر پہلے ہی اپناٹرانسپورٹ پورا تھا۔ اب ایک ماربل ٹرک کو اپنی باری کے لئے ایک 6سے 7 روز تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ جس سے گاڑی مالکان، ڈرائیورز  اور کنڈیکٹرز معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔ ان کے خاندانوں کو تعلیم و صحت سے متعلق مسائل کا سامنا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ مہمند میں ماربل تنازعات کی حل کے لئے ایک غیر جانبدار کمیٹی  کے ساتھ با اثرباکردار مشران پر مشتمل جرگہ تشکیل دے تو گفت و شنید سے مسئلوں کا حل نکل سکتا ہے۔ اور ٹھیکیداران اور قوم کے درمیان جو بد اعتمادی پیدا ہوئی ہے۔ اس کے ازالے کا طریقہ کار بنایاجائے۔ سرمایہ کاروں تحفظ اور اطمینان دیا جائے تو چالو مائنز دوبارہ چالو ہونگے،نئے معدنی پراجیکٹس کھلیں گے۔ اور ہزاروں نئے لوگ برسر روزگار ہوجائینگے۔

مہمند ماربل فیکٹریز ایسوسی ایشن تحصیل حلیمزئی کے صدر نوشاد خان نے تنازعہ کو ہمیشہ نقصان قرار دیتے ہوئے کہا کہ ضلع مہمند میں بد امنی کے بعد امن کی بحالی کے ساتھ پہاڑوں میں معدنیات دریافت میں اضافہ اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی نعمت قراردیتے ہوئے کہا کہ بد قسمتی سے ہم اس کی قدر نہیں کرتے۔انہوں نے کہا کہ اس نے 15سال قبل گندہاب دورباخیل میں ایک غیر آباد جگہ پر پہلی ماربل پراسس فیکٹری بنائی۔ جس کو دیکھتے ہوئے مقامی لوگوں نے بھی ماربل کارخانے بنانے شروع کئے۔جو اب تعداد سو فیکٹریوں تک پہنچ کر ہزاروں مزدوروں اور ماربل کاروبارسے وابستہ افراد کا مرکز بن گیا ہے۔اور کراچی،لاہور، پنڈی اور دیگر بڑے شہروں سے لوگ ماربل خریداری کے لئے یہاں آتے ہیں۔ اور پسند کے مطابق ماربل خریدتے ہیں۔ضلع مہمند کے ہر پہاڑ کے ماربل کی رنگت اور شناخت الگ ہے۔ ایسے میں اگر کوئی مائن یا پہاڑ پر کام بند ہوجائے تو ڈیمانڈ کے مطابق سپلائی نہیں ہوپاتی اور خریدار دوسرے علاقوں کارخ کرتے ہیں۔ جس سے مجموعی طور پر ہمارے صنعت کونقصان ہوتا ہے۔

قبائیلی ضلع مہمند کے مقامی فلاحی تنظیم کے صدر میر افضل مہمند نے اس حوالے کہا کہ یہاں کے پہاڑ ہزاروں سال سے یہی تھے۔اب اگر اس میں قدرتی معدنیات نکل آئی ہے تو قوم کو سمجھ کر اس کے لئے طویل المدتی قومی پالیسی بنانی چاہئے۔ جس کے تحت تنازعات کا روک تھام ہو۔ کثرت رائے کے فیصلے کو تسلیم کرنے اور قانون پر عملدر آمد یقینی ہو۔ انہوں نے کہا کہ جہاں قدرتی معدنیات نکل رہے ہوں وہاں کے ٹھیکیداروں اور حکومت کو چاہئے کہ علاقے میں تعلیم، صحت اور لنک روڈز کے منصوبے شروع کرے۔  قومی کمیشن کے اعداد و شمار اور ہر اہم فیصلوں کے کاغذات سے کمیونٹی کو آگاہ رکھا جائے۔ تو شفافیت کے حوالے سے اٹھنے والے بہت سوالات اور مسئلے حل ہونگے

صنعتی پیداوارکی فایل فوٹو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔       

۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button